روزہ روح و بدن کی صحت و سلامتی کا بہترین وسیلہ

یہ دعویٰ کہ غذا سے پرہیز کے ذریعے انسان کی بدنی قوتوں کی تجدید ہوتی ہے اور ازسرِ نو قوت و توانائی حاصل کی جاسکتی ہے، بادی النظر میں ناقابل یقین ہے لیکن جدید ترین طبی تحقیقات و تجربات نے اس دعوے کو صحیح ثابت کر دیا ہے۔ برطانیہ کے مشہور وزیر اعظم ونسٹن چرچل نے ادھیڑ عمر میں روزے رکھ کر عملی طور پر ثابت کر دیا کہ صحت کی مستقل سلامتی کا بہترین ذریعہ غذا میں کمی اور پرہیز ہے لیکن چرچل جس کے ہاتھ میں اپنے وقت کی عظیم ترین سلطنت کی باگ ڈور تھی اور وہغیر معمولی صلاحیتوں اور قوتوں کا مالک تھا۔ اس کو اپنے آپ پر نہ صرف اتنا ضبط حاصل تھا کہ وہ جس جگہ اور جب چاہتا اپنے آپ کو گردو پیش کے ماحول سے بے نیاز کر لیتا ، حتی کہ وہ جب چاہتا ارادہ کرکے فورا ًسو جاتا۔

مسٹر چرچل اکثر وقفوں وقفوں بعد24,24 ،گھنٹے بلکہ بعض اوقات ،48,48 گھنٹے تک روزہ رکھا کرتے تھے کیونکہ انہوں نے تشخیص کر لیا تھا کہ ان کی پر خوری اور کھانے پینے میں افراط کی وجہ سے پیدا ہونے والی خرابیوں اور عوارضات کا بہترین علاج روزہ داری ہے اور ضمناً روزہ ان کی غورو فکر کی قوتوں کو کسی امر پر مرکوز کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوتا تھا، حالانکہ یہ بات خلافِ عقل معلوم ہوتی ہے۔ چرچل ایسا تنہا سیاست دان نہیں تھا جس پر یہ راز منکشف ہوا۔ برطانیہ کے ایک اور مشہور سیاست دان سرسٹیفورڈ کرپس بھی روزہ رکھنے کے ان فوائد سے آگاہ اور اس پر عمل پیرا تھے۔

آج کل بہت سے ملکوں جیسے سوئٹزر لینڈ، جرمنی، انگلستان ، ریاستہائے متحدہ امریکہ میں بہت سے ایسے خصوصی کلینک یا نرسنگ ہومز قائم ہو چکے ہیں کہ وہاں لوگ اپنے قوائے جسمانی کی تجدید ِنو کی خاطرRejunevationدوسرے لفظوں میں از سرِ نو جوان ہونے کی خاطر داخلہ لیتے ہیں۔ یہاں قویٰ کی تجدید روزے کی مشق سے کی جاتی ہے۔ روزے کی یہ مشق عام طور پر تین ہفتوں کی ہوتی ہے۔ عام تصور کے خلاف ان خصوصی علاج گاہوں میںعلاج کرانے والے روزے کے کورس کے خاتمہ پر نہ صرف یہ کہ بھوک اور پیاس یا کسی قسم کا کوئی ضعف محسوس نہیں کرتے بلکہ امریکہ کے مشہور ادیب اپٹن سنکلیر کے بقول وہ پہلے سے زیادہ صحت مند ہوتے اور چند سال جوان تر ہوتے ہیں۔

اس ناقابلِ یقین تبدیلی کا آخر سبب کیا ہے ؟ انسانی صحت کے ماہرین کا یہ خیال ہے کہ بدن میں مختلف زہروں کو ختم کرنے کا روزے سے بہتر کوئی ذریعہ نہیں۔ ان ماہرین کا یہ نظریہ ہے کہ ہمارے زمانہ میںغذا کی لازمی حد سے زیادہ غذا کھائی جاتی ہے، یا جو غذائیں ہم کھاتے ہیں وہ ہمارے بدنوں کی احتیاجات سے مطابقت نہیں رکھتیں اور نتیجتاً ہم بھاری پن ، گرانی، معدے اور ہضم کے اعضا ء کی سستی و مزمن خستگی اور تھکاوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جرمنی کے مشہور ماہر مارٹن کہتے ہیںکہ آج کل اکثر افراد کے عصبی بحرانوں میں مبتلا رہنے کی اصل وجہ یہ ہے کہ وہ خون جو ان کے خلیوں میں جاری و ساری ہوتا ہے وہ بیش غذائی سمیات سے آلودہ ہوتا ہے۔ ایک اور فرانسیسی خصوصی ماہر کلو پاتو اس سے بھی بڑھ گئے ہیں، ان کا دعویٰ ہے کہ انسان کی تین چوتھائی بیماریاں غذائی مواد کی تبخیر سے پیدا ہوتی ہیں۔ یہ بات بے بنیاد نہیں ہے کہ مسلمان ماہرین نے تمام بدنی عوارضات اور بیماریوں کا منبع شکم کو قرار دیا ہے

جب انسان ایک معینہ مدت تک غذا کے استعمال سے پرہیز کرتا ہے تو نہ صرف یہ کہ اس کے جسم میں نئے زہریلے مادے بھی ختم ہو جاتے ہیں اور فرانسیسی ماہر ڈاکٹر جین فرموزان کے قول کے مطابق روزے سے ایک قسم کی دھلائی کا عمل واقع ہوتا ہے۔

روزوں کے کورس کی ابتداء میں زبان سخت اور بھاری ہو جاتی ہے اور بدن سے بہت پسینہ خارج ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ روزہ دار کی ناک سے بھی آبی نزلہ رواں ہو جاتا ہے، او ریہ سب امور اس بات کی علامت ہیںکہ دھلائی کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ پھر چار پانچ روز بعد دہن کی بدبو ختم ہو جاتی ہے ، یورک ایسڈ کا شرح تناسب گھٹ جاتا ہے جس سے آدمی کو ایک قسم کے ہلکا پن اور غیر معمولی لطف و نشاط کا احساس ہونے لگتا ہے۔ لہٰذا روزہ رکھنے سے نہ صرف جسم کے زہریلے مادے ختم ہو جاتے ہیں بلکہ جسم کے مختلف نظاموں کے اعضاء کو بھی آرام و استراحت کا موقع نصیب ہوتا ہے ۔ کیونکہ ان اعضا کی کارکردگی کے عمل میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔ ڈاکٹر برتھولیٹ ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ بہت کم لوگوں کو یہ علم ہوتا ہے کہ جسم کے اعضاء غذائی مواد سے توانائی کی کچھ مقدار غذا کے عملِ ہضم میں اور اس کو مختلف نالیوں سے گزارنے میں اور غذا کو توانائی میں تبدیل کرنے میں خرچ کرتے ہیں۔ اس امر کی یہی وجہ ہے کہ بخار میں مبتلا مریضوں کو ہلکی اور زدو ہضم غذا تجویز کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مریض کے نظامِ ہضم کے اعضاء معمول کی غذا کو ہضم کرنے اور اسے توانائی میں تبدیل کرنے کی قدرت نہیں رکھتے۔

اس جگہ یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ جو شخص کسی بیماری میں مبتلا نہ ہو وہ چند روز تک غذا کے استعمال سے پرہیز کرنے اور نتیجتاً کم ا زکم بھوک ، پیاس اور کمزوری کے احساس میں مبتلا نہ ہو۔

وہ تمام لوگ جو روزوںکا کورس کرتے ہیں کہتے ہیںکہ روزہ دار پہلے تین چار روزے گزر جانے پر بھوک کا احساس نہیں کرتا ۔ یہ تصور کہ جب کوئی شخص مکمل طور پر غذا کے استعمال سے اجتناب کرتا ہے تو اس کا جسم غذا جذب کرنے کے عمل سے محروم رہتا ہے، اشتباہ پر مبنی ہے ۔ دراصل جس وقت انسان روزہ رکھتا ہے تو بدن کا نظام جس نے کافی مقدار میں غذائی مواد کا ذخیرہ کیا ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں خون میں پروٹین کے اہم ذخائر موجود ہوتے ہیں اور چربی کا بھی اتنا ذخیرہ ہوتا ہے جو مردوں میں مجموعی وزن کا30 اور عورتوں میں20 فیصد ہوتا ہے، یہ کم سے کم ایک ماہ تک بدن کے لئے ضروری توانائی فراہم کر سکتا ہے۔ بنا بریں جب انسان روزے رکھتا ہے تو وہ اپنے بدن سے غذا حاصل کرتا ہے یعنی دوسرے الفاظ میں انسان خود اپنے آپ کو کھاتا ہے لیکن جاذبِ توجہ نکتہ یہ ہے کہ یہ خود خوری اتفاقیہ اور اندھا دھند واقع نہیں ہوتی ۔ اس معنی میں کہ فقط زائد شحمی نسیجیں جو چنداں ضروری نہیں ہوتیں، خرچ ہوتی ہیں۔ مثلاً روزہ کے دوران اکثر غیر طبعی گلٹیاں ، ابھار اور جسم کے پھوڑے پھنسیاں ، کیل مہاسے اور زائد اور مضر چربی کے گلائی کوجنی مواد رفع دفع ہو جاتے ہیں اور ان کے نتیجے میں طبعی پروٹین کا ذخیرہ ایک مقررہ نظم کے تحت صرف ہوتا ہے اور اس طرح ممکن ہے کہ بدن کے اکثر عضلات اپنے زائد وزن کا 40فیصد خرچ کردیں ۔ عضلات میں بعض ایسے بھی ہیں جن میں تحلیل کا عمل اس طرح نہیں ہو سکتاکہ ان کی مقدار میں غیر طبعی کمی محض روزہ کی وجہ سے ہو جائے ۔مثلاً دل کسی صورت میں بھی اپنے وزن سے نہیں گھٹتا۔ تاہم بدن کے زائد مواد کو خارج کرنے والے اہم ترین عضلات مثلاً گردے اور جگر وقتی طور پر بھی روزے کے باعث چھوٹے نہیں ہوتے جبکہ اعصابی نسیجوں اورمغز کی نسیجوں کو کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ مشہور زیست شناس(Physiologist) پروفیسر بندیکٹ نے ثابت کر دیا ہے کہ ایک مہینے تک غذا سے پرہیز خون کی ترکیبات میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی پیدا نہیں کرتی۔ لہٰذا خلاصۃً کہا جا سکتا ہے کہ روزہ داری کے عرصہ میں بدنِ انسانی کے اعضا ء محفوظ رہتے ہیں۔ بنا بریں ایک محدود مدت تک روزے رکھنا تغذیہ کا بہترین ذریعہ شمار ہوتا ہے ۔ کیونکہ اس مدت میں بدن کا کارخانہ اپنے ذخیروں کو خرچ کرتا ہے اور ضمنی طور پر نظامِ ہضم کے اعضاء غذائی مواد کو ہضم کرنے کے فریضے کی انجام دہی سے معاف رکھے جاتے ہیں۔ اس امر کو سمجھنے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ دل کی دھڑکنوں کی تعداد پر غور کیا جائے۔ معمولا ًانسانی دل ہر منٹ میں60سے90 بار تک دھڑکتاہے جواوسطاً 70بار بنتا ہے۔ اور یوں یہ 24 گھنٹے میں اوسطاً100800 بار دھڑکتا ہے۔ لیکن روزہ کے دوران چونکہ دل کو غذا کے ہضم کرنے کے عمل میں مدد دینے سے چھٹی مل جاتی ہے لہٰذا اوسطاً دل کی ضربیں فی منٹ60اور دن رات میں86400 ہوجاتی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں دل 14400دفعہ کم دھڑکتا ہے، لہٰذا یہ امر باعثِ حیرت و تعجب نہ ہونا چاہیے کہ انسان روزوں کی ادائیگی کے بعداپنے آپ کو پہلے سے جواں تر محسوس کر لے۔

بہت سے افراد جو اپنی صحت کی بہتری کے لئے روزے رکھتے ہیں، ان کا مشاہدہ ہے کہ ان کا چہرہ پہلے سے زیادہ کِھل اٹھتا ہے ، ان کی جلد میں نئی طراوت آجاتی ہے اور چہرے کی بہت سی جھریاں ختم ہو جاتی ہیں حتی کہ تغیر رونما ہو جاتا ہے اور ان کی بینائی کی قوت بڑھ جاتی ہے۔ ایسے بعض افراد روزے کے دورے کے بعد پہلے سے دگنے فاصلے پر تشخیص کرنے کے قابل ہو گئے کہ جو آوازیں پہلے نہ سن سکتے تھے روزے کے دورے کے بعد سننے لگے۔

سوچ بچار اور غور وفکر کی قوت بھی روزے کے نتیجہ میں جِلا پاتی ہے اور اس طرح صحت کے ماہرین اس قسم کی تبدیلیوں کو حقیقی تجدید قوائے جوانی کہتے ہیں اور ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ جسم کے فرسودہ اور بیمار سالمے …روزے کے اثر سے ختم ہوجاتے ہیں ۔ نتیجتاً قویٰ اور صحت مند سالمے بہتر طور پر پرورش پاتے ہیں۔ ڈاکٹر کارلون اور ڈاکٹر گونڈ، جو شکاگو یونی ورسٹی میں انسانی زندگی کے ماہرین ہیں انہوں نے مشاہدہ کیا ہے کہ ایک 40 سالہ مرددو ہفتہ تک غذا سے پرہیز کرنے کے بعد بدنی طاقت کے لحاظ سے ایک18 سالہ جوان کی شکل میں تبدیل ہو گیا۔

ڈاکٹر فرموزان ایسے اشخاص کو بھی جو کاملاً صحت مند ہوں ، گاہے گاہے روزے رکھنے کی تلقین کرتے ہیں تاکہ ان کے بدن کے زہریلے مادے ختم ہو جائیں اور ان کی جوانی کی قوت از سرِ نو عود کر آئے کیونکہ ان کا خیال ہے کہ کوئی شخص یہ دعوی نہیں کر سکتا کہ اس نے کسی موقع پر مرغن بھاری چربی سے بھری غذا کے استعمال میں افراط سے کام نہ لیا ہو اور اس طرح اپنے بدن کی مشینری کو زہریلے مادوں سے آلودہ نہ کر لیا ہو ۔ وہ نشان دہی کرتے ہیں کہ بعض بیماریاں جیسے منہ کی بدبو ، انتڑیوںمیں غذائی مادے کی تبخیر کی نشانی ہوتی ہے اور پھولی ہوئی یا کٹی پھٹی زبان معدہ کے عضلات کی خستگی کا اظہار کرتی ہے اور اسی طرح بھاری پن ، کھانا کھانے کے بعد نیند آنے کا میلان ، ہچکی ، جمائیاں ، سر درد کا احساس یہ سب باتیں ہمیں ہوشیار کر دینے کی علامتیں ہیں اور بدن میں زہریلے مادوں کی موجودگی کا اعلان کرتی ہیں۔ انسان کو جس قدر زیادہ تھکاوٹ کا احساس ہو اسے اسی قدر زیادہ یہ یقین ہو جانا چاہیے کہ اسے اپنی بہتری اور اصلاح کے لئے روزے رکھنے کی احتیاج لاحق ہے۔ کیونکہ یہ تھکاوٹ غذائی سمیت کی علامت ہے اور اس طرح پھوڑے پھنسیاں نکلنا، چہرے پر کیل مہاسے نکلنا جو جِلدی احساسِ تکان میں تبدیل ہو جاتے ہیں یہ سب بھی ہمیں خبردار کرنے والی علامتیں ہیں۔

روزے رکھنے کی خصوصی تکنیک پرماہرین میں کامل اتفاق رائے نہیں ہے۔ امریکہ کے ڈاکٹر شیلٹن کا کہنا ہے کہ روزے کے دورے کی مدت تین ہفتہ ہونی چاہیے۔ روزہ دار کو اس مدت میںکسی قسم کی غذا نہیں کھانی چاہیے۔ لیکن اس کے برعکس یورپی ماہرین مختصر عرصہ کے لئے روزے لیکن بار بار تکرار کی سفارش کرتے ہیں، جس میں روزے کے دورے کی مدت چار روز سے زیادہ نہ ہو۔ بعض ماہرین روزے کے کورس کے دوران جوش دیئے ہوئے عرق تجویز کرتے ہیں اور بعض دوسرے جن میں ڈاکٹر برچ بینر (Birche Benner)شامل ہیں اس نظریہ کے حامل ہیں کہ اگر روزہ دار صرف تازہ پھل یا پھلوں کے رس پر اکتفا کرے تو وہی نتائج جو مکمل فاقہ سے حاصل ہوتے ہیں انہیں سے بہرہ مند ہو گا۔ لیکن تمام ماہرین متفقہ طور پر ہر قسم کے الکحل کے مشروبات، چائے، قہوہ وغیرہ اور ہر قسم کے تمباکو کے استعمال سے منع کرتے ہیں اور نیز ان کا خیال یہ بھی ہے کہ روزہ کے ذریعے علاج لازمی طور پر کسی نرسنگ ہوم یا ہسپتال وغیرہ میں ہونا چاہیے۔ کیونکہ ایسی جگہوں میں روزہ دار شخص نہ صرف یہ کہ متواتر ماہر ڈاکٹروں کی نگرانی میں رہتا ہے بلکہ اپنے روزمرہ کے ماحول سے بھی نجات پا لیتا ہے۔ تفکرات اور پریشانیوں سے پرے رہتا ہے۔ ضروری امر ہے کہ روزہ دار اور اس کے گردو پیش رہنے والے افراد میں کسی قسم کی بدگمانی ، بداطمینانی نہ ہو اور کوئی پریشان کن عوامل نہ ہوں۔ روزے کا کورس مکمل طو رپر ہر لحاظ سے کامل سکون اور اطمینان کی فضا میں سرانجام پانا چاہیے ورنہ مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہوسکیں گے ۔ تمام مشہور عارف اور ریاضت کرنے والے بھی روزہ رکھنے کے اس نکتہ سے آگاہ ہیں اور اس کو ملحوظ رکھتے ہیں۔ شریعت نے بھی روزے کے دوران ہر قسم کے لہو ولعب ، لڑائی بھڑائی اور فضول کاموں سے منع فرمایا ہے۔

ایک وقت تھا TTP(تحریک طالبان پاکستان) والے ہمارے مغربی بارڈر ڈیورنڈ لائن کے محافظ تھے ، ہمارے لئے ہیزر ڈ تھے۔ ہم نے پیشگی تیاری کے بغیر آپریشن شروع کیا تو پھر تھریٹ کا مرحلہ آگیا ۔ اس دوران ہمیں آئے روز نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ۔ اس آپریشن کے ردعمل میں ہمارے 80,000شہری اور10,000 فورسز کے اہل کار شہید ہوگئے۔ دیگر اقوام کے ذہنوں میں مسلمانوں کے بارے میں ’’ دہشت گرد‘‘ کے لفظ کا استعمال ہوا۔ ہم نے اپنے آپ کو آج سے ہی تیار کرنا ہے۔ نوحؑ کو کشتی تیار کرنے کا اللہ رب العزت کی طرف سے حکم ملا تو آپ ؑنے فوراً اس پر عمل شروع کردیا۔ اسباب اختیار کرنے کے بعد اللہ پر توکل ضروری ہے ۔ہمیں حکم ہے کہ ہم اپنے اونٹ کو باندھ کر اللہ تعالیٰ کے سپرد کریں۔

اسلام میں روزہ ایک بہت بڑی عبادت ہے اور تزکیہ نفس کا ذریعہ لیکن آپ نے دیکھا کہ دنیا کے مشاہیر بھی اور جدید طبی سائنس روزے کی افادیت کی کتنی معتقد ہے یہی وجہ ہے کہ روزہ کسی نہ کسی شکل میں دنیا کی ہر قوم میں اور ہر زمانے میں مروج رہا ہے۔

( ہفت روزہ المنبر31-18 جولائی1979ء)

٭…٭…٭

روزہ روح و بدن کی صحت و سلامتی کا بہترین وسیلہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *