Aaghosh e aatifat

اس موسم بہار نے پھر ایک مرتبہ ہم سب کو اپنی آغوشِ عاطفت میں لے لیا، جس میں رحمتِ الٰہیہ کا دریا موج زَن ہے، عطا ء و بخشش کا سمندر متلاطم ہے اور جو دوسخا کی دل رُبا ہوائوں نے تمازتِ آفتاب سے نیم جان سبزے کو حیاتِ تازہ سے ہم کنار کر دیا ہے۔

سرکش شیاطین جکڑے جا چکے ہیں،وہ جہنم جو ہر لمحہ معصیت زدگان کے انتظار میں رہتی ہے، اس ماہِ مقدس کے اجلال واحترام اوررحمتِ الٰہیہ کے جوش و خروش کے تقاضے کے طور پر اس کے دروازے بند کئے جا چکے ہیں اورمغفرتِ ذنوب وکفارۂِ سیّآت کے وعدے پورے کئے جا رہے ہیں۔

اسی ماحول میں ہر صبح ہاتف پکار رہاہے:

یَا بَاغِیَ الْخَیْرِاَقْبِلْ وَیَا بَاغِیَ الشَّرِّ اَقْصِرْ۔

نیکی و بھلائی کے طالب آگے بڑھ، تیز قدم ہوکر منزل سے ہم کنار ہو، اور کہ جو شر و معصیت کے مواقع تلاش کرتا رہتا ہے باز آجا، اس جانب اُٹھے ہوئے قدم واپس لوٹالے اور اس واویِ ہلاکت سے منہ موڑ کرمنزلِ فلاح و کامرانی کی جانب اقدام کر۔

خیرو برکت ، اصلاح و تزکیہ ، سیرت سازی واستواریِ کردار،>نمواخلاق و اضافۂ ایقان و ایمان کا یہ موسمِ دل رُباہم آپ سبھی کو دعوتِ عمل دے رہا ہے اوریہ صدائے دل نواز ہر قلبِ مومن پردستک دے رہی ہے کہ جو مہینہ تم پر سایہ فگن ہوا ہے اس کا پہلا عشرہ رحمت ، دوسرا مغفرت اور تیسرا جہنم سے آزادی کے لئے مختص ہے ،اورحق یہ ہے کہ یہ تینوں رحمت، مغفرت اور جہنم سے آزادی ، ایک دوسرے سے اسی ترتیب سے پیوست ہیں ، صورتِ واقعہ یہ ہے کہ

(الف)۔۔۔۔انسان کا مقصدِ وجود اپنے رب سے قریب و تعلق پیدا کرنا، اس کے حضور شرفِ قبول حاصل کرنا اور اس کی رضا و خوشنودی سے بہرہ وَر ہونا ہے۔

اس مقصدِ وحید اور انسان کے مابین جو چیز سب سے زیادہ حائل ہوتی ہے وہ ہے معصیت و نافرمانی۔ سرورِ ہر دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق اللہ تعالیٰ جس چیز سے سب سے زیادہ ناراض ہوتے ہیں، وہ ان اعمال کا ارتکاب ہے جن کو رب السماوات والارض نے انسان پر حرام قرار دیا ہے۔

یہ معصیت اور گناہ، انسانوں کو اپنے مالک و آقا سے دور پھینک دیتا ہے، اس کے سامنے اسے حقیروذلیل کر دیتا ہے اورگناہوں پر مُصر انسان ، آہستہ آہستہ اپنے رب کی معرفت ، اس کی فرمانبرداری و اطاعت اوراس کے قرب سے محروم ہوتا چلا جاتا ہے۔ہر گناہ انسان کے دل پر ایک سیاہ دھبہ ڈالتا ہے، اگر یہ دھبیمسلسل پڑتے چلے جائیںتو دل سیاہ ہو جاتا ہے اور بسا اوقات گناہوں کی سیاہی اس طرح پورے دل کو گھیر لیتی ہے جیسے تانبے کے برتن پر لگا ہوا زنگار، اس پر خول کی صورت اختیار کر جاتاہے۔ معصیت و گناہ میں مبتلا انسان اپنے مالک و آقا کی رحمت و شفقت، اس کی توجہ اور اس کی جانب سے عطا ہونے والی نعمتوں سے محروم کر دیا جاتا ہے۔

رب رؤوف و رحیم ،جوماں کی مامتا سے زیادہ اپنے بندوں کے لئے رحمت و شفقت رکھتے ہیں، انہوں نے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت پر شفقت فرماتے ہوئے رمضان مبارک کا مہینہ اس مقصد کے لئے مقرر فرما دیا کہ اس کے پُر انوار ماحول میں بندۂ مومن اپنے آپ کو رحمتِ الٰہیہ، مغفرتِ الٰہیہ اور رب العزت کی سخاوت و بخشش کا مستحق بنائے۔

اگر انسان ، اس ماہ کے آتے ہی مستعد ہو جائے ، اپنے نفس پر یہ پابندی عائد کرلے کہ اب وہ وہی کچھ کرے گا ، جس کے کرنے کا حکم اس کے آقا نے دیا ہے ،اوران تمام امور سے مجتنب رہے گا جن سے اس نے روکا ہے تویہ اطاعت و فرمانبرداری ، اسے اللہ ذوالجلال کی رحمت سے قریب ترکر دے گی، اور جب مومن مسلسل دس دن، اپنے دل و دماغ ، زبان ،منہ، ہاتھ پائوں اوردوسرے اعضاء و جوارح کو اللہ رب العزت کی اطاعت کا خوگر بنا لیتا ہے،تو نہ صرف یہ کہ اوقاتِ مقررہ پر کھانے پینے سے رک جاتا ہے بلکہ اس کی زبان جھوٹ، مکر و فریب، دھوکہ دہی، جھوٹی شہادت ، دوسروں کی دل آزاری ، گالی گلوچ ، سخت زبانی ، چغلی، غیبت ، دوسروں کی عیب جوئی ، دوسروں کی تحقیر و تذلیل ، اِن تمام عیوب سے رُکی رہتی ہے، اور اس کے برعکس یہ زبان حمد و شکر کے ترانے گاتی ہے، تسبیح و تمجید کے کلمات دہراتی رہتی ہے ، تلاوتِ قرآن اور دوسروں کو بھلائی کی تبلیغ و تلقین میں ہر لمحہ مصروف رہنے لگتی ہے، اور اسی طرح اس کی آنکھ ، ہر حرام چیز کو دیکھنے سے بچی رہتی ہے ، بے پردہ عورتوں کے سینما کی سکرین پر رقص و سرود اوربے حیائی کے مناظر کے مشاہدے سے محفوظ رہتی ہے اور یہ آنکھ دن کی روشنی میں صفحاتِ قرآن مجید پر مرکوز رہتی ہے اوررات کی تاریکی میں اپنے رب کے حضور ندامت کے آنسو بہاتی ہے۔

ایسے ہی انسان کے ہاتھ ظلم و تعدّی سے ، جبرو استبداد سے ، رشوت لینے اوردینے سے،عریانی اور فحاشی پھیلانے والے فیچرز اور مقالات لکھنے سے، فوٹو چھاپنے سے ، کم تولنے سے ، اشیاء میں ملاوٹ کرنے سے رک جاتے ہیں اوریتیموں کے لئے دستِ شفقت بننے ، راہ ِ خدا میں جہاد کی تیاری کرنے ، اسلامی مملکت کی سرحدوں کی حفاظت کے لئے اسلحہ اٹھانے، مورچے کھودنے ، مساجد میں صفائی ، دفاتر میں یہ ہاتھ مظلوموں کی داد رسی ، حاجت مندوں کے اٹکے ہوئے کاغذات کو عدل وانصاف کی تحریروں سے آراستہ کرنے، مقدمات کے درست فیصلے لکھنے ، نیکی اور عدل کے دوسرے کاموں میں مصروف رہنے لگتے ہیں۔

یہ سلسلۂ اطاعت و فرمانبرداری صرف دل و دماغ ، زبان اورہاتھ ہی تک کہاں محدود ہے ، بندۂ مومن کے تمام اعضائِ بدن، اس کے بدن کا ایک ایک رئواں، دس دن اور دس راتیں ، اللہ رب العزت کی نافرمانی سے بچنے اوراسے خوش کرنے والے کاموں میں مصروف رہنے میں گزارتا ہے، تو اللہ رئووف ورحیم کی رحمت جوش میں آتی ہے۔ جو دُوری انسان کے بُرے اعمال کی وجہ سے، اس کے اور اس کے مالک و آقا کے مابین پچھلے گیارہ ماہ میں پیدا ہو چکی تھی ، وہ ختم ہو جاتی ہے تو اپنے رب کا یہ گناہ گار لیکن دل سے مطیع اور تائب بندہ اپنے رب کے قریب ہو جاتا ہے اوردریائے رحمت کی لہریں ، اسے بابِ مغفرت کے قریب کر دیتی ہیں۔

دس دنوں اور راتوں کی یہ محنت ،توجہ اوراطاعت و فرمانبرداری کا مجاہدہ اور اس کے ساتھ ساتھ نفس پرقابو پانے کی مسلسل تربیت اوراس کی خواہشات کو رب العزت کے احکام و حدود کا پابند بنانے کی پیہم جدوجہد عبدِ مومن کو حوصلہ مند بناتی ہے اور وہ رات کے پچھلے پہر کی خلوت میں اپنے مالک کے حضور ندامت کااظہار کرتاہے، اس کی آنکھوں سے اشک ہائے ندامت کا سیلِ رواں بہتا چلا جاتا ہے ، وہ بلبلاتا، روتا ، ہچکیاں لیتا، عجزو دَرماندگی اوراحتیاجِ مجسم بن کر اپنے مالک کے حضور ، قیام ، رکوع اورسجدے میں مستغرق رہتا ہے تورحمان و رحیم آقا کی رحمت اسے منزلِ مغفرت سے ہم کنار کر دیتی ہے اوریہ گناہوں سے پاک و صاف ہو جاتاہے۔

گناہوں کی نجاست دُھل جانے کے بعد تیسرا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔ جو لوگ رحمت و مغفرت کے انوار سے زیادہ سرشار ہوتے ہیں وہ تو اپنے قلب و ذہن کے ہاتھوں مجبور ہو کر، ماسوٰی اللہ سے اپنا رشتہ آئندہ دس دنوں کے لئے منقطع کرلیتے ہیں اوراپنے رب کے گھر کے کسی کونے میں جا پڑتے ہیں ۔ انہیں کسی مسجد میں اعتکاف سے کیا کچھ میسر آتاہے ؟ اس سوال کاجواب دینا شائد کسی کے بس کی بات نہ ہو ۔

بس مختصر یہی کہ جولوگ فہم و شعور کی بیداری اور قلب و ذہن کی استواری سے معتکف ہوتے ہیں، وہ تو اس نوع کی لذت سے سرشار ہوتے ہیں جو کسی بچھڑے ، آزردہ حال محب کو اپنے محبوب سے ملاقات اور ملاقات کے بعد خلوت سے میسر آتی ہے اوریہ لوگ اس لذتِ خلوت سے کما حقہ بہرہ وَر ہوتے ہیں۔ رہے وہ جو رسماً ایسا کرتے ہیں توکتنے کام ہیں جو اپنے جوہر کے اعتبار سے بے حد اونچے ہیں، مگر جب ہم ایسے پست ہمت انہیں انجام دینے لگتے ہیں تووہ ’’نقل اتارنے‘‘ سے آگے نہیں بڑھ سکتے،مگر اس سے ان کاموں کی عظمت میں کیا فرق پڑتاہے؟ اور پھر یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ اچھے کام کی نقل اتارنا بھی بہر حال ایک اچھا کام ہی ہے اور کیوں ممکن نہیں کہ کوئی خوش نصیب نقل اتارتے اتارتے حقیقت کو پالے اور اس کا مزاج اصل کے سانچے میں ڈھل جائے۔

 وَمَا ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ بِعَزِیْزٍ۔

مولانا حکیم عبدالرحیم اشرف (رحمہ اللہ علیہ) ( 8دسمبر 1967ء 5رمضان المبارک 1387ھ)

آغوش عاطفت

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *