
روزہ مومن کے لیے شفا یابی کا ذریعہ ہے۔یہ بے پناہ فوائد سے مالا مال عمل ہے ، روحانی اور اخلاقی فوائد کے علاوہ معدہ کے امراض سے شفا اور بدن کے گندے مواد کے لیے جھاڑو کا کام دیتا ہے۔
نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے اپنی مرض الموت میں حضرت ابو ہریرہ ؓ کو جو تین وصیتیں فرمائیں ، ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ ہر ماہ تین روزے رکھے جائیں۔(مسلم:1672)
آپ صلى الله عليه وسلم خود رمضان کے روزوں کے علاوہ ہر ماہ تین نفلی روزے رکھا کرتے تھے۔ نبیe ایام بیض یعنی ہر قمری ماہ کی 15,14,13 تاریخ کے تین روزوں کے علاوہ ہر سوموار اور جمعرات کو بھی روزہ کا اہتمام فرماتے۔(نسائی:2362)
اطباء اور موجود زمانے کے ڈاکٹرحضرات ’’ قیامِ صحت کے لئے اسلامی طریقہ روزہ داری‘‘ اس عنوان کی اہمیت و افادیت کا اعتراف کرتے ہیں۔
پروفیسر مورپالڈ آکسفورڈ یونیورسٹی کی پہچان ہیں انہوں نے کہا کہ میں نے اسلامی علوم کا مطالعہ کیا اور جب روزے کے باب پر پہنچا تو میں چونک پڑا کہ اسلام نے اپنے ماننے والوں کو اتنا عظیم فارمولا دیا ہے۔ اگر اسلام اپنے ماننے والوں کو اور کچھ نہ دیتا ، صرف روزے رکھنے کا فارمولا دیتا تو پھر بھی اس سے بڑھ کر اس کے پاس اور کوئی نعمت نہ ہوتی، میں نے سو چاکہ اس کو آزمانا چاہیے ۔ پھر میں نے مسلمانوں کی طرز پر روزے رکھنے شروع کردیئے۔میں عرصہ دراز سے معدے کے ورم میں مبتلا تھا۔ کچھ ہی دنوں کے بعد میں نے محسوس کیا کہ اس میں کمی واقع ہوگئی ہے، میں نے روزوں کی مشق جاری رکھی اور پھر میں نے جسم میں کچھ مزید تبدیلی محسوس کی ۔ کچھ عرصہ بعد میں نے اپنے جسم کو نارمل پایا ۔ حتیٰ کہ ایک ماہ بعد میں نے اپنے اندر انقلابی صحت افروز تبدیلی محسوس کی۔
ڈاکٹر لوتھر جیم آف کیمرج، فارما کالوجی کے ماہر تھے ۔ ہر چیز کو غور اور توجہ سے دیکھنا ان کی طبیعت کا خاصہ تھا۔ انہوں نے سارا دن خالی پیٹ (روزے دار) شخص کے معدے کی رطوبت لی اور پھر اس کا لیبارٹری ٹیسٹ کیا ، تو یہ محسوس کیا کہ ایسے متعفن غذائی اجزاء جن سے معدہ مختلف قسم کے امراض قبول کرتا ہے ، بالکل ختم ہوجاتے ہیں اور لوتھر کا کہنا ہے کہ روزہ جسم اورخاص طور پر معدے کے امراض میں صحت کی ضمانت ہے۔
سگمنڈ فرائیڈ مشہور ماہر نفسیات ہے۔ موصوف فاقہ اور روزے کا قائل تھا، اس کا کہنا ہے کہ روزے سے دماغی تھکان اور نفسیاتی امراض کا کلی خاتمہ ہو جاتا ہے ۔ سکندر اعظم اور ارسطو دونوں یونانی لیڈر اپنے فیلڈ کے ماہر ہیں۔ انہوں نے فاقہ کو جسم کی توانائی کے لیے ضروری قرار دیا ہے۔
پاپ ایلف گال ہالینڈ کا بڑا پادری گزرا ہے ۔ اس نے روزے کے بارے میں اپنے تجربات کچھ یوں بیان کئے ہیں:
میں اپنے پیروکاروں کو ہر ماہ تین روزے رکھنے کی تلقین کرتا ہوں۔ میں نے اس طریقہ کار کے ذریعے صحت کے ساتھ ساتھ جسمانی ہم آہنگی محسوس کی۔ میرے مریض مسلسل مجھ پر زور دیتے ہیں کہ میں انہیں علاج کے لیے کچھ اور طریقہ بتائوں لیکن میں نے یہ اصول وضع کرلیا کہ ان میں جو مریض لاعلاج ہیں ان کو تین یوم نہیں بلکہ ایک ماہ تک روزے رکھوائے جائیں ، میں نے ذیابیطس، دل کے امراض اور معدے کے امراض میں مبتلا مریضوں کو مستقل ایک ماہ روزے رکھوائے ۔ ذیابیطس کے مریضوں کی حالت بہتر ہوئی ان کی شوگر کنٹرول ہوگئی، دل کے مریضوں کی بے چینی اور سانس کا پھولنا کم ہوا۔ معدے کے مریضوں کو سب سے زیادہ فائدہ ہوا۔
روزہ کے بارے میں یورپین ماہرین مسلسل تحقیق کررہے ہیں ۔ حتیٰ کہ وہ اس بات کو تسلیم کرچکے ہیں کہ روزہ جہاں جسمانی زندگی کونئی روح اور توانائی بخشتا ہے ، وہاں اس سے بے شمار معاشی پریشانیاں بھی دور ہو جاتی ہیں کیونکہ جب امراض کم ہوں گے تو ہسپتال بھی کم ہوں گے۔ ہسپتال کا کم ہونا پر سکون معاشرے کی علامت ہے ۔ کچھ عرصہ قبل تک یہ سمجھا جا تا تھا کہ روزہ بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ اس سے نظام ہضم کو آرام ملتا ہے۔ جیسے جیسے طبی علوم نے ترقی کی، اس حقیقت کا بتدریج علم ہوا کہ روزہ ایک طبی معجزہ ہے ۔
روزہ کا سب سے زیادہ اثر نظامِ ہضم پر پڑتا ہے ۔ نظامِ ہضم ایک دوسرے سے قریبی طور پر ملے ہوئے بہت سے اعضاء پر مشتمل ہوتا ہے۔ جیسے ہی ہم کھانا شروع کرتے یا اس کا ارادہ کرتے ہیں ، یہ نظام حرکت میں آجاتا ہے اور ہر اس کا عضو اپنا مخصوص کام شروع کردیتا ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ سارا نظام چوبیس گھنٹے ڈیوٹی پر ہونے کے علاوہ اعصابی دبائو اور غلط قسم کی خوراک کی وجہ سے ایک طرح تھک جاتا ہے۔ روزہ اس سارے نظام پر ایک ماہ کا آرام طاری کردیتا ہے۔ مگر درحقیقت اس کا حیران کن اثر بطور خاص جگر پر ہوتا ہے کیونکہ جگر کے کھانا ہضم کرنے کے علاوہ اور بھی بہت سے کام ہیں۔ یہ اس طرح تھکان کا شکار ہو جاتا ہے ۔ روزے کے ذریعے جگر کو چند گھنٹے آرام کا وقت مل جاتا ہے۔ جگر کو اگر قوت گویائی مل جائے تو وہ کہے کہ اے انسان ’’مجھ پر ایک عظیم احسان صرف روزے کے ذریعے ہی کرسکتے ہو۔‘‘
انسانی معدہ روزے کے ذریعے سے جو بھی اثرات حاصل کرتا ہے ، وہ بے حد فائدہ مند ہوتے ہیں۔ روزے کے ذریعے معدہ سے نکلنے والی رطوبتیں بھی بہتر طور پر متوازن ہوجاتی ہیں۔ کیونکہ روزہ کی وجہ سے تیزابیت زیادہ جمع نہیں ہوتی۔ جبکہ عام قسم کی بھوک سے یہ بڑھ جاتی ہے۔ روزہ آنتوں کو آرام اور توانائی مہیا کرتا ہے ۔ دوران خون پر بھی روزے کے انتہائی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ روزے کی حالت میں خون کے دوران کی مقدار میں کمی ہو جاتی ہے۔ یہ امر دل کو انتہائی فائدہ مند آرام مہیا کرتا ہے۔ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ خلیوں کے درمیان مائع کی مقدار میں کمی کی وجہ سے نسوں یعنی پٹھوں پر دبائو کم ہو جاتا ہے ۔ پٹھوں پر دبائو کم ہونا، بلڈ پریشر کے Diastolic دبائو کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔چنانچہ روزے کے دوران Diastolic Presure ہمیشہ کم سطح پر ہوتا ہے ، یعنی اس وقت دل آرام کی حالت میں ہوتا ہے ۔ روزے کے دوران اعصابی نظام بھی مکمل طور پر سکون اورآرام کی حالت میں ہوتا ہے ۔ عبادات کی بجاآوری سے حاصل شدہ تسکین ہماری تمام کدورتوں اور غصے کو دور کردیتی ہے ۔ آج کے دور کے سنگین مسائل جو اعصابی دبائو کی صورت میں ہوتے ہیں ، تقریباً ختم ہوجاتے ہیں ۔ روزے کا سب سے اہم اثر خلیوں کے درمیان اوران کے اندر سیال مادوں کے طبعی توازن کو قائم پذیر رکھنا ہے۔ چونکہ روزے کے دوران مختلف سیال مقدار میں کم ہو جاتے ہیں تو خلیوں کے عمل میں کسی حد تک سکون پیدا ہو جاتا ہے ۔ اسی طرح لعاب دار جھلی کی بالائی سطح کے خلیے جنہیں Epithelial سیل کہتے ہیں جوکہ جسم کی رطوبت کے متواتر اخراج کے ذمہ دار ہوتے ہیں ، ان کو بھی صرف روزے کے ذریعے بڑی حد تک آرام اور سکون ملتا ہے۔
ماہرین علم الخلیات کے نقطہ نظر سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ لعاب بنانے والے غدود ، گردن کے غدد اور لبلبہ کے غدود شدید بے چینی سے ماہ رمضان کا انتظار کرتے ہیں ۔ تاکہ روزے کی برکت سے کچھ سستانے کا موقع حاصل کرسکیں اور مزید کام کرنے کے لیے اپنی توانائی کو تازگی دے سکیں ۔ خون ہڈیوں کے گودے میں بنتا ہے ۔ جب کبھی جسم کو خون کی ضرورت پڑتی ہے ، ایک خود کار نظام ہڈی کے گودے کو حرکت پذیر (Stimulate) کردیتا ہے ۔ لاغر لوگوں میں یہ گودا سستی کا شکار ہوتا ہے۔ روزے کی حالت میں جب غذائیت کم ترین سطح پر ہوتی ہے تو ہڈیوں کا گودا خود بخود حرکت پذیر ہو جاتا ہے ، اس کے نتیجے میں لاغر لوگ بھی روزہ رکھ کر آسانی سے اپنے اندر زیادہ خون پیدا کرسکتے ہیں۔ (البتہ جو شخص خون کی پیچیدہ بیماری میں مبتلا ہو ، اسے طبی معائنہ اور معالج کی تجویز کو ملحوظ خاطر رکھنا پڑے گا)
رمضان میں روزے رکھنے سے وزن میں نمایاں کمی ہو سکتی ہے بشرطیکہ متوازن سحر و افطارہوں اس کی اصل وجہ جسم کی چربی میں کمی ہو جاتا ہے ۔ رمضان کے آخری عشرے میں وزن کم ہونے لگتا ہے کیونکہ جسم خود کو استحصالی طور پر ڈھالنے کی کوشش(Metabolic Adaptation) میں غذائی اجزاء جمع اور محفوظ کرنے لگتا ہے ۔ رمضان کے 30روزوں کے دوران بھوک کم ہو جاتی ہے۔ روزوں میں باقاعدگی کی وجہ سے جسم چربی زیادہ استعمال کرنے لگتا ہے ، اس طرح موٹے اور فربہ لوگ بھی صحت پر روزے کی عمومی برکات کے ذریعے اپنا وزن کم کر سکتے ہیں۔ خون کی چکنائیوں میں اضافہ امراض قلب کا اہم سبب ہوتا ہے۔ تحقیق کرنے والوں نے تصدیق کی ہے کہ رمضان کے روزوں سے دل میں کولیسٹرول HDL میں کوئی 14فیصد کمی ہو جاتی ہے ۔ اس طرح روزے صحت قلب میں اضافے کا سبب بنتے ہیں ، بشرطیکہ رمضان کی روح کے مطابق غذا میں واقعتاً کمی ہو، یعنی حرارے کم استعمال کئے جائیں۔
ذیابیطس کے مرض میں لبلبے کی رطوبت انسولین کی کمی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اس کی وجہ سے خون میں شکر کے بڑھ جانے سے اہم اعضاء کو بڑا نقصان پہنچتا ہے ۔ رمضان کے مہینے میں روحانی توانائی کی مدد سے بڑھی ہوئی بھوک میں کمی کے ذریعے سے خون میں شکر کی سطح کم کرنا بہت آسان ہوتا ہے۔کم خوراکی اس کا اہم ترین ذریعہ ہوتی ہے۔
خون میں شکر کے کم ہونے سے صحت زیادہ بہتر محسوس ہوتی ہے ۔ رمضان کے روزوں کو ذیابیطس کیلئے مفید اورمؤثر سمجھنا چاہیے۔( تاہم پیچیدگیوں کی صورت میں معالج سے مشورہ کرنا ضروری ہے) جرمنی ، انگلینڈ اور امریکہ کے ڈاکٹروں کی ٹیم رمضان المبارک میں اس بات کی تحقیق کرنے کے لیے آئی کہ اس ماہ میں(E.N.T) کان، ناک اور گلے کے امراض کم ہو جاتے ہیں یا نہیں۔ اس تحقیق کے لیے انہوں نے پاکستان کے تین بڑے شہر کراچی، لاہور اور فیصل آباد کا انتخاب کیا ۔
اس سروے کے بعد انہوں نے جو رپورٹ مرتب کی، اس کا خلاصہ یہ ہے۔’’ چونکہ مسلمان نماز پڑھتے ہیں، خاص کر رمضان المبارک میں زیادہ پابندی کرتے ہیں، اس لئے وضو کرنے سے (ENT)کے امراض کم ہو جاتے ہیں ۔ کھانا کم کھانے سے معدے اور جگر کے امراض کم ہو جاتے ہیں۔ چونکہ مسلمان ڈائٹنگ کرتا ہے، اس لئے اعصاب اور دل کے امراض بھی کم ہوتے ہیں ۔ رمضان میں روزے رکھنے سے یورک ایسڈ بھی نارمل ہو جاتا ہے۔
مائوزے تنگ جدید چین کا بانی لیڈر تھا، اس کے سامنے چین کے معاشی مسائل تھے۔ اس نے اپنی تقاریر میں اس بات پر زور دیا ہے کہ خود کھانا کھاتے ہوئے اپنے پڑوسی اور دیکھنے والوں کو بھی شامل کرلو۔ خود بھوکے رہ کر بھوکوں کا احساس پیدا کرو۔ مذکورہ تعلیمات دراصل مائوزے تنگ کی نہیں تھیں بلکہ اسلامی تعلیمات ہیں۔
وسیع طبی معلومات سے ثابت ہو تا ہے کہ رمضان کے روزوں میں باقاعدگی اس مہینے کے علاوہ بعد میں بھی صحت کے لیے مفید ثابت ہوتی ہے۔ دور حاضر میں مضر اور زہریلی کیمیائی دوائوں کا استعمال عام ہے جس کے زہریلے اثرات مریض کو ہلکان کردیتے ہیں۔معالجین کے لیے یہ مناسب ہے کہ وہ روزوں کے ذریعے جسم کی قوت مدافعت کو قوی تر بنائیں جس کے لیے ضروری ہے کہ جسم مضر اثرات سے پاک ہو۔ روزے جسم کو ان سے نجات حاصل کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ گویا اس طرح مضر صحت ادویات کے استعمال کی ضرورت کم ہو جاتی ہے ۔تاریخ گواہ ہے کہ روزے سب سے سستے اور مؤثر علاج ثابت ہوتے ہیں۔ ضرورت ان سے صحیح انداز میں استفادے کی ہے۔ روزوں کا اصل مقصودتقلیل غذا اور نمازوں سے جسم کو حرکت دے کر مضر صحت اجزاء سے پاک کرنا ہے۔
جو لو گ حرکت میں رہتے ہیں ، برکت پاتے ہیں ۔ جو انسان جدوجہد اور سعی مسلسل اور کاوش پیہم کی راہ اپنا لیتے ہیں ، اس دنیا کی فراوانیاں ان کا مقدر ہو جاتی ہیں اور جب اس کا مقصود اللہ اور اس کی رضا کا حصول ہوتا ہے تو انسانی عظمت انتہائوں کو چھو لیتی ہے۔ روزہ ایک عبادت اور فرض ہے۔ اس کے جسمانی، نفسیاتی اور روحانی فوائد مسلمہ ہیں۔ روزہ رکھنے سے جس طرح ظاہری و باطنی مضرات زائل ہوتے ہیں، اسی طرح اس سے ظاہری و باطنی مسرت بھی حاصل ہوتی ہے۔
سحری
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے کہ سحری میں برکت ہے (بخاری: 1923) اسے ہر گز نہ چھوڑو۔ اگر کچھ نہیں تو اس وقت پانی کا ایک گھونٹ ہی پی لیا جائے کیونکہ سحری میں کھانے پینے والوں پر اللہ کی رحمت ہوتی ہے اور فرشتے ان کے لیے دعائے خیر کرتے ہیں۔ (مسند احمد:3727)
افطار
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ اپنے بندوں میں مجھے وہ بندہ زیادہ محبوب ہے جو روزہ افطار کرنے میں جلدی کرے۔(بخاری ومسلم)
ارشاد گرامی ہے:’’ جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو وہ کھجور سے افطار کرے اور اگر کھجور نہ پائے تو پھر پانی ہی سے افطار کرے، اس لیے کہ پانی کو اللہ تعالیٰ نے طہور بنایا ہے ۔‘‘( ابو دائود : 2355)
روزے کے بعد چونکہ توانائی کم ہو جاتی ہے، اس لئے افطاری ایسی چیز سے ہونی چاہیے جو زود ہضم اور مقوی ہو، اس کے لیے کھجور بہترین غذا ہے۔ دن بھر کے روزے کی کمزوری کو رفع کرنے کے لیے افطاری کے لیے نبی اکرمe ستو پسند فرماتے تھے۔ شہد کا شربت بھی افطاری کے لیے غذائیت سے بھرپور صحت بخش مشروب ہے۔ سحر اور افطار کے وقت زود ہضم اشیاء استعمال کی جائیں۔ افطار کے وقت دعا قبول کی جاتی ہے لہٰذا اس وقت خوب دعا مانگو۔نماز تراویح ایک ہلکی پھلکی ورزش ہے جس کے بعد سکون اور آرام کی نیند آتی ہے۔اعصابی کھچائو اور دبائو کم ہوتا ہے، پٹھے مضبوط ہوتے ہیں، معدے اور دل کے امراض میں کمی ہوتی ہے۔
کھجور: دین و طب کی روشنی میں
بدن انسانی کی تمام ضرورتوں کو پورا کرتا ہے۔ طاقت و قوت کا خزانہ ہے۔ بیمار رہنے والی اور کمزور خواتین میں بھی مفید ومؤثر ہے۔ دماغی کمزوری والوں کیلئے ہر موسم میں فائدہ مند ہے، مقویٔ قلب ہے۔
کھجور درجہ دوم میںگرم اور درجہ اول میں تر ہے۔ کھجور کا رنگ پیلا، گلابی، سرخی مائل، سرخ سیاہ، شربتی، سبزی،سبزی مائل پیلا، ہلکا پیلا ہوتا ہے۔ ذائقہ میٹھا و شیریں ہوتا ہے۔ اس کی مقدار خوراک 10گرام سے 20گرام تک ہے۔ نبی کریم e نے روزانہ سات کھجوریں کھانے کی تلقین کی ہے۔ گرمی کے امراض میں مبتلایا جن کی آنکھیں دکھ رہی ہوں وہ کھجور سے اجتناب کریں۔
حکیم احمد بلال جدون