چھٹی حس:کتنا وہم کتنی سچائی؟

دیکھنا، سننا، محسوس کرنا، سونگھنا اور چکھنا یہ ہمارے وہ حواس خمسہ ہیں جو ہمیں دنیا سے جوڑتے ہیں لیکن کیا ان کے علاوہ بھی ہمارے اندر کوئی اور حس ہے جو اس دنیا سے ماورا اور مافوق الفطرت چیزوں کا احاطہ کرتی ہے، ایسے حواس سے انسان ایسی باتوں کا ادراک کرنے کے قابل ہو جاتا ہے جو ہمارے روزمرہ تجربات کا حصہ تو نہیں ہوتے مگر اس سے اکثر انسانوں کا کبھی نہ کبھی واسطہ ضرور پڑتا رہتا ہے۔ اس حس کی بدولت ہم آنے والے کل کو بھی محسوس کر سکتے ہیں۔ نفسیات سے تعلق رکھنے والے سائنسدان اس حس کو چھٹی حس کا نام دیتے ہیں اور یہ حس کسی نہ کسی صورت میں ہر انسان میں ایک خاص حد تک موجود ہوتی ہے۔ کبھی کبھی انسان کولگتا ہے جیسے کوئی آفت آنے والی ہے یا پھر اچانک محسوس ہونا شروع ہو جاتا ہے جیسے کسی بڑے نقصان کا خدشہ ہے یا کوئی ایسا کام ہوجاتا ہے جس سے لگتا ہے کہ کوئی بڑی خوشخبری ملنے والی ہے اور اگر تھوڑی دیر بعد توقع کے مطابق کوئی ایسا واقعہ ظہور پذیر ہو جائے جو تھوڑی دیر پہلے سوچ رہے تھے یا اس کی توقع کر رہے تھے اور اگر وہی سوچ حقیقت کی شکل اختیار کر کے سامنے موجود ہو تو اس طرح سوچنے یا اس واقعہ کے مشاہدہ کے بعد اپنے ماقبل احساس کو چھٹی حس کہا جاتا ہے۔ اسی طرح کچھ لوگ الہام یعنی خواب دیکھنے اور وہی بات سچ ہونے پر کشف یعنی ایسا خواب جو دن میں انسان کو جاگتے کی حالت میں نظر آئے کو بھی چھٹی حس کہتے ہیں۔چھٹی حس واقعی ایک سچائی ہے؟ کیا ایسا ممکن ہے کہ اس حس کی بدولت انسان آنے والے کل کو محسوس کر سکتا ہے ۔سائنس اس کے بارے میں کیا کہتی ہے؟ سائنسدان پچھلے سو سال سے چھٹی حس کے ثبوت ڈھونڈنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ اس بات کے بھی ثبوت تلاش کئے جا رہے ہیں کہ کیا چھٹی حس انسانوں کے علاوہ جانوروں، پرندوں یا حشرات میں بھی پائی جاتی ہے۔ چھٹی حس پر دنیا کے کئی ممالک میں ریسرچ ہو رہی ہے۔ سائنسدانوں کا کہناہے کہ یہ بات پوری طرح سے ممکن ہے کہ انسان یا جانوروں میں چھٹی حس کا وجود ممکن ہے۔ حال ہی میں پچھلی چند دہائیوں میں ہونے والے تجربات اور ان کے ملنے والے ثبوتوں کی روشنی میں اب یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ ہمارے دماغ کے اندر کوئی نہ کوئی ایسی چیز پوشیدہ ہے جس کی بدولت ہم آنے والے کل کو بھی محسوس کر سکتے ہیں ۔پوری دنیا میں سائنسدان چھٹی حس کو الگ الگ تجربات سے پرکھنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔

نیدرلینڈ کی سائنسدان بیٹرس یہ ریسرچ کر رہی ہیں کہ ہمارے جذبات کیسے ایک انسان سے دوسرے انسان تک جاتے ہیں ؟وہ اندھے پن پر بھی ریسرچ کر رہی ہیں۔ انہوں نے ثابت کیا ہے کہ کچھ نابینا افراد دوسروں کے چہروں پر آئے جذبات کو دیکھ لیتے ہیں ،عام طور پر تو یہی خیال کیا جاتا ہے کہ ہم آنکھوں سے دیکھ پاتے ہیں اور آنکھیں بھی اس لیے دیکھ پاتی ہیں کیونکہ وہ دماغ سے جڑی ہوتی ہیں۔

بیٹرس یہ پتا لگا رہی ہیں کہ کیا دماغ آنکھ کے علاوہ کسی اور ذریعہ سے بھی دیکھنے کا اشارہ(Signal) موصول کر سکتا ہے۔ اپنے تجربہ میں بیٹرس نے نابینا افراد کو کچھ ناراض ، اداس اور خوش چہروں کی تصاویر دکھائیں مریض کے چہرے پر لگے الیکڑوڈز(Electrodes) اس کے ایموشن مسلز (Emotin Muscles)میں کسی بھی تبدیلی کو محسوس کر لیتے ہیں۔ اس تجربہ میں انہوں نے دیکھا کہ جس طرح کے جذبات(Emotion) تصویروں میں نظر آرہے تھے ،نابینا افراد بھی اس کی نقل کر رہے تھے اور وہ انجانے میں ان مسلز کا استعمال کر رہے تھے جو سکرین پر نظر آنے والے ماڈلز نے اپنی مسکراہٹ یا اداس چہرے کے لئے کیا تھا جب مریضو ں سے پوچھا گیا کہ آپ ایسا کس لئے کر رہے تھے کیا کچھ دیکھ پا رہے تھے؟ جس پر زیادہ تر مریضوں کی طرف سے یہی جواب ملا کہ وہ اندازے سے ایسا کر رہے تھے۔

بیٹرس کو لگتا ہے کہ بلائنڈ سائیٹ اصل میں دماغ کے چھپے ہوئے حصے میں موجود ایک ایسا تحت الشعوری نظام(Subconsclous System) ہے جو صرف جذبات والی تصویروں پر سگنل موصول کرپاتا ہے۔ بیٹرس دماغ کی الگ الگ پرتوں میں جھانکنے کی کوشش کر رہی ہیں تاکہ یہ پتا لگایا جا سکے کہ دماغ کے اندر یا پیچھے والے حصے میں کیا ہوتا ہے، وہ کیسے کام کرتا ہے وہ کس طرح سے بنا ہے، کیا وہ نیچے والی پرانی پرتوں میں ہے؟ بیٹرس نے ان پرانی پرتوں کا پتا اس وقت لگایا جب انہوں نے ایک مریض کو ایم آر آئی میں ڈال کر اسے وہی ایموشن والی تصاویر دکھائیں۔ تصاویر عام طور پر آنکھوں کو دیکھنے والی کسی چیز کی معلومات اعصاب بصریہ آپٹک نروز(Optic Nerves) کے ذریعہ القشرۃ البصریہ( visual cortex ) کی طرف جاتی ہے مگر جب آنکھیں انسانی جذبات کو دیکھتی ہیں تب وہ راستہ بدل کر اللوزۃ (Amygdala)اور اکیمۃ متفوقۃ(Superior Colliculus) اور دماغ میں بنے چھ دوسری ساختوں میں چلے جاتے ہیں۔ انسان کے دیکھنے والے سسٹم میں کم از کم نو الگ الگ راستے ہوتے ہیں، ہم نے ان میں سے ابھی ایک کو سمجھنا شروع کیا ہے جبکہ آٹھ راستے ابھی پوری طرح سے اندھیرے میں ہیں۔ ابھی تو یہ لگ رہا ہے کہ جب ایک راستہ بند ہو جاتا ہے تب ہی باقی راستوں کو موقع ملتا ہے۔ بیٹرس نے ان تحت الشعوری نظام (Subconsclous System) پاتھ و ے کے راستے کا پتا لگایا ہے جن سے ہم جذبات کو دیکھتے نہیں ہیں بلکہ انہیں محسوس کرتے ہیں۔ یہ اعصابی راستے سبھی انسانوں کے اندر ہوتے ہیں مگر عام طور پر وہ ہماری نظر کے ابتدائی خلیات سے دبے ہوتے ہیں۔ ہم جن حواس خمسہ کو جانتے ہیں ان کے علاوہ ایک نئے حواس کے بارے میں یہ پہلا سائنسی ثبوت ہے۔ بیٹرس کی ریسرچ سے ہمیں یہ پتا لگتا ہے کہ ہمارا دماغ ان چیزوں کو بھی محسوس کر سکتا ہے جن کے بارے میں ہم نہیں جانتے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم چھٹی حس کو شاید تبھی سمجھ پائیں گے جب ہم شعوری آگاہی(Conscious Awareness) اور تحت الشعوری تجربات (Subconscious Experience)کے درمیان کی حد فاصل کو سمجھ پائیں گے۔

ماہرین اعصاب کہتے ہیں کہ ہمارے دماغ کے اندر ہونے والی برقی سرگرمی(Electrical Activity) کا ایک نمونہ ہے، اگر آپ غصے میں ہوں یا مسکرائیں تو آپکی سوچ کمرے میں بیٹھے سبھی لوگ سمجھ لیتے ہیں۔ کچھ سائنسدان یہ بھی کہتے ہیں کہ چھٹی حس ایسے ہی کام کرتی ہے۔انسان کی سوچ ایک مجموعی شعور(Conscious) میں بدل کر پوری دنیا میں پھیل جاتی ہے۔

راجر نیلسن پچھلے تیس سال سے عالمی شعور کے ثبوت ڈھونڈنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ دنیا کے مختلف ملکوں میں ان کے عالمی شعور(Global Conscious) پروجیکٹ چل رہے ہیں۔ ان میں آسٹریلیا ،نیوزی لینڈ، ہوائی اور یورپ کے کئی ممالک شامل ہیں۔ ان میں ہر جگہ بے ترتیب نمبر(Random Number) جنر یٹر ایک کمپیوٹر سے جڑا ہے۔ یہ گلوب نیٹ ورک دن رات کام کرتا ہے اور ڈیٹا جمع کر کے راجر کی لیب کے سرور کو بھیجتا ہے جو ہر سیکنڈ میں ایک کلر بلاک کی شکل میں نظر آتا ہے۔ جب بھی دنیا میں کوئی بڑ اواقعہ رونما ہوتا ہے تب راجر یہ دیکھتے ہیں کہ ان کے نیٹ ورک میں کتنی تبدیلی آ ئی ہے۔ انہوں نے 340 سے زیادہ تجربات کئے، ان کے کئی ڈیٹا میں تیزی سے تبدیلی آئی ہے۔

انہوں نے عالمی شعور(Global Conscious) پروجیکٹ سے جو ڈیٹا جمع کئے ہیں ان میں سے ایک ڈیٹا باقی سب سے الگ ہے۔ انہوں نے نائن الیون کے ڈیٹا کو دیکھا جس میں اس وقت کافی تبدیلیاں آئی ہیں۔ یہ ڈیٹا نائن الیون سے تقریبا ایک ہفتے پہلے کا تھا جس میں انہیں کچھ ایسی سرگرمی (Activity)دکھائی دی جو نارمل نہیں تھی اور نائن الیون کی صبح ساڑے چار بجے تک ڈیٹا میں واضح فرق نظر آنے لگا، اگرچہ ایسا نائن الیون واقعہ کے بعد ہونا تھا لیکن یہ فرق جہاز کے ٹکرانے سے پہلے ہی شروع ہو گیا تھا جب عالمی شعور(Global Conscious) نیٹ ورک نے اس کے ہونے سے پہلے ہی ردعمل کیا تھا۔ راجر کے ڈیٹا سے پتا لگتا ہے کہ وہ ایک عالمی شعور(Global Conscious) تھی مگر یہ عالمی شعور(Global Conscious) آخر کام کیسے کرتا ہے؟ بیالوجسٹ روپا شیلڈر مانتے ہیں کہ اس کا جواب اس فیلڈ میں چھپا ہے جو ہر جاندار پیدا کرتا ہے، اسے مارفک فیلڈ کہتے ہیں۔ ہممقنا طیسی میدان (Magnetic Field)کی مثال سے اس فیلڈ کو سمجھ سکتے ہیں۔ جب ہم کچھ مقناطیسں کو ایک دوسرے کے قریب کرتے ہیں تو وہ ایک دوسرے کو اپنے پاس کھنچتے ہیں یا دور کرتے ہیں،یہ گھومتے ہیں اور ایک پیٹرن میں جمع ہو جاتے ہیں۔ ان فیلڈ زمیں ایک سیلف آرگنائیزنگ پراپرٹی قدرتی طور پر ان میں موجود ہوتی ہے، بالکل اسی طرح ایک اور فیلڈ ہوتی ہے جسے مارفک فیلڈ کہتے ہیں اور وہ جانوروں اور پودوں کو ایک ترتیب میں لا کر دماغ اور سوچ کو بھی ترتیب دیتی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ مارفک فیلڈ کی وجہ سے ہی پرندے ایک خاص فارمیشن سے اڑتے ہیں ،مارفک فیلڈ کی وجہ سے ہی جانور اور پرندے بڑے پیمانے پر ہجرت کرتے ہیں۔ اسی فیلڈ کی بدولت وہ آنے والے خطرہ سے بھی با خبر ہو جاتے ہیں۔ وہ مانتے ہیں کہ ہماری دنیا ایک مقناطیسی میدان (Magnetic Field)میں لپٹی ہے۔ دنیا کے بہت سے جاندار اس کے بغیر نہیںرہ سکتے۔سمندری کچھوے ،مچھلیاں اور دیگر سمندری جاندار اس گلوبل مقنا طیسی میدان (Magnetic Field) کے ذریعہ ہی راستے کا پتا لگاتے ہیں۔ کیا ہمارا دماغ بھی اس کا استعمال کرتا ہے اور کیا یہی مقناطیسیت (Magnetism)ہی ہماری چھٹی حس کی جڑ تو نہیں ہے؟زمین کی میگنیٹک فیلڈ کا جانوروں پر ہونے والے اثر کو دیکھ کر نیوروسائنٹسٹ مائیکل پرسنجر مانتے ہیں کہ اسکا اثر انسانوں پر بھی ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں جانور تھری ڈائیمنشنل میگنیٹک فیلڈ کا استعمال ایک نیوی گشین ڈیوائس کی طرح کرتے ہیں لیکن اس تکنیکی پہلو(Mechanism) کے بارے میں ابھی تک ہم یہ نہیں جانتے کہ ایسا کیسے ہوتا ہے۔ زمین کا مقنا طیسی میدان (Magnetic Field)اصل میں وہ میڈیم ہے جس کے اندر ہم سبھی موجود ہیں ۔اس کی وجہ سے ہم ایک دوسرے سے معلومات حاصل کرتے ہیں۔ ایک تھیوری کے مطابق مقنا طیسی میدان (Magnetic Field)اصل میں ایک ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کی طرح ہے ۔ہمارے دماغ کی برقی سرگرمی(Electric Activity) ان لہروں پر سفر کرتی ہے اور ایک انسان سے دوسرے انسان تک جاتی ہے ۔یہ بڑی ہی انوکھی تھیوری ہے مگر مائیکل نے اسے ٹسٹ کرنے کے لئے ایک بڑا تجربہ ڈیزا ئن کیا ۔ان کی ٹیم نے دو ماتحت مارک اور مینڈی کو چھ میٹر کی دوری پربنے دو الگ الگ کمروں میں رکھا۔ دونوں کمرے ایک دوسرے کو نظر نہ آسکتے تھے اور نہ ہی وہاں کی کوئی آواز سن سکتے تھے۔ وہ زمین کے مقنا طیسی میدان (Magnetic Field)سے بھی باہر تھے۔ مائیکل نے اس کی جگہ اپنا ایک کنٹرول مقنا طیسی میدان (Magnetic Field) بنایا جو ان کے سر پر ہیڈ ینیڈ پر لگے الیکٹریکل کوائل سے پیدا ہوتی تھی، اس طرح سے مارک اور مینڈی کو ایک جیسی ہی مقناطیسی قوت محسوس ہوئی۔

اس سے مائیکل یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ ایک جیسی مقناطیسی قوت ہونے سے کیا ان کے دماغ کی سرگرمی (Activity)بھی ایک جیسی ہو سکتی ہے۔ اس تجربہ میں ایک لائٹ بیس منٹ تک مارک کے کمرے میں جلائی اور بجھائی گئی۔ پہلی بار تین منٹ اور دوسری بار پانچ منٹ بعد لائٹ فلیش کی گئی اور حیران کن طور پر مینڈی کے دماغ کی سرگرمی (Activity) بھی عین اسی وقت بڑھی جب مارک کے کمرے میں لائٹ فلیش کی گئی اب مائیکل کو یہ پتا لگانا تھا کہ اس کمرے میں مینڈی نے کیا محسوس کیا تھا۔مینڈی نے بتایا کہ تقریباً تین منٹ بعد اس کی بائیں آنکھ میں ایسا لگا جیسے ایک تیز روشنی آئی ہو اور اس کے تقریبا ًپانچ منٹ بعداس کی دائیں آنکھ میں بھی ایسی ہی تیز روشنی محسوس ہوئی، اگرچہ مینڈی ایک اندھیرے کمرے میں بیٹھی تھی لیکن پھر بھی اس کے دماغ کی سرگرمی (Activity)پر فرق پڑ رہا تھا۔ اس تجربہ سے یہ تو ثابت ہوگیا کہ دو جگہوں پر موجود دماغ بھی ایک جیسا محسوس کر سکتے ہیں اور اگر ایک دماغ میں تبدیلی آتی ہے تو دوسرے میں بھی آتی ہے۔ ہم سب ایک مقنا طیسی میدان (Magnetic Field) سے جڑے ہیں اور یہ ہمارے جسم اور دماغ سے ہو کر گزرتا ہے۔مائیکل کہتے ہیں کہ انہیں چھٹی حس کے کچھ ثبوت مل گئے ہیں ہو سکتا ہے کہ ایک دن وہ وقت آئے جب انسان وقت کے پار چلا جائے اور مستقبل کو محسوس کر سکے۔

ڈین ریڈیڈ انسٹی ٹیوٹ فار ناریٹو سائنس کے ایک سینئر سائنسدان ہیں اور وہ پورے زور و شور سے چھٹی حس کی سچائی کی آواز بلند کر رہے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہمیںچھٹی حس(Gut Feeling) سے یہ احساس ہوتا ہے کہ کچھ ہونے والا ہے۔ وہ یہ دعوی کرتے ہیں کہ یہ احساس کوئی جادوئی چیز نہیں ہے بلکہ یہ احساس ہمیں چھٹی حس سے ہوتا ہے وہ کہتے ہیں کہ زیادہ تر لوگوں کے ساتھ چھٹی حس(Gut Feeling) کا احساس ہوتا ہے۔ اس کی مثال ایسے ہے کہ کار پر جاتے ہوئے ہم جیسے ہی کسی موڑ یا چوراہے پر پہنچتے ہیں تو ہمارے دل میں کچھ برے خیالات آتے ہیں اور ہم سپیڈ کم کر دیتے ہیں، ہمیں کسی بات کا ڈر لگتا ہے اسی دوران کوئی ٹرک قریب سے گزرتا ہے اور اگر سپیڈ کم نہ کی ہوتی تو شاید ہم اس سے ٹکرا جاتے، یہ آخر کیا ہے؟ دراصل ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ ہم اپنے مستقبل کو دیکھ لیتے ہیں۔ڈین مانتے ہیں کہ چھٹی حس(Gut Feeling)اصل میںمستقبل کے لاشعوری احساس(Unconscious Sense) کا ہی نتیجہ ہے۔

اپنے تجربہ میں انہوں نے اپنی ماتحت جینٹ کو کہا کہ وہ کمپیوٹر مانیٹر پر موجود تصویریں دیکھیں اور ساتھ ہی انہوں نے جینٹ کے ذہنی دبائو(Stress Level) اور نفسیاتی ردعمل(Psychological Response) کو ریکارڈ کرنا شروع کیا۔ جینٹ کو الگ الگ طرح کی تصاویر دکھائی گئیں، کچھ تصویریں سادہ تھیں اور کچھ تصویریں جذباتی نوعیت کی تھیں جس کے بعد انہوں نے جینٹ کے سکن کنڈکٹ کو ناپا تاکہ پتا چلایا جا سکے کہ کن تصویروں کو دیکھ کران کا ذہنی دبائو(Stress Level) کیا ہوتا ہے۔ ڈین امید کر رہے تھے کہ ایک جذباتی تصویر دیکھنے پر ان کے رسپانس میں زبردست بدلائو آئے گالیکن انہیں یہ بدلائو نظر نہیں آ یا ۔ڈین کہتے ہیں کہ جذباتی اور سکون دینے والی تصویروں کے درمیان جب اس کی ٹائمنگ دیکھی گئی تو جس وقت انہوں نے جذباتی تصویریں دیکھیں اس سے چند سیکنڈ پہلے ہی انکے ذہنی دبائو(Stress Level) میں بدلائو آیا۔ اگرچہ انہوں نے ابھی جذباتی تصویریں نہیں دیکھی تھیں، اس فرق کو وہ قبل از اندازہ جواب (Pre Assessment Response)کہتے ہیں ان کے مطابق جینٹ کا قبل از اندازہ جواب (Pre Assessment Response) تصویریں دیکھنے سے پہلے ہی ردعمل دکھانے لگتا ہے۔ پچھلے تیس سال میں سیکڑوں ٹرائلز کے دوران انہیں ایسے ہی نتیجے دیکھنے کو ملے۔ ان کے سبھی ماتحتوں میں قبل از اندازہ جواب (Pre Assessment Response) نظر آیا۔ وہ کہتے ہیں کہ تقریبا پانچ سیکنڈ پہلے ہی یہ محسوس ہونے لگتا ہے لیکن اسکی حدود کا ہمیں ابھی علم نہیں ہے۔ لیکن چھٹی حس ایک سچائی ہے اگر چہ یہ ہماری باقی پانچ حسوں جتنی مضبوط نہیں ہے ۔چھٹی حس اب سائنس کے باہر نہیں رہی !کیا چھٹی حس واقعی ہے؟ اب تو یہ سوال پوچھنے کا مطلب بھی نہیں ہے۔ برین ریسرچ نے پہلے ہی ان پاتھ ویز کو واضح کر دیا ہے مگر کیا ہمارا دماغ گلوبل مائنڈ سے جڑ سکتا ہے یا ہم مستقبل کو محسوس کر سکتے ہیں؟ اسکے بارے میں ابھی بہت کم ثبوت ملے ہیں لیکن ایک دن ہمیں ان کے جواب بھی مل جائیں گے کیونکہ ان کے جواب یہیں ہیں یعنی ہمارے اپنے دماغ کے اندر۔

ڈاکٹر سہیل اختر

٭…٭…٭

چھٹی حس:کتنا وہم کتنی سچائی؟
Tagged on:                                         

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *