دیسی لوگ، دیسی طب

دیس ، وطن ، دھرتی جسے ہم ماں کہتے ہیں ۔ ماں وہ ہستی ہے کہ جو انسانی زندگی کو اپنے پیٹ میں سمیٹ کر ایک خاص وقت تک اس کی پرورش کرتی ہے،بچہ جب مکمل ہوتا ہے تو پیٹ سے باہر آکر اسی کی گود اس کا ٹھکانہ ٹھہرتی ہے، اس ننھی سی زندگی کو پنپنے کے لئے اب چھاتی چاہیے ، یہاں سے آنے والا ’’دودھ‘‘ بچہ کو روز بروز قوت دے کر چند ماہ میں اپنا وزن اپنے پائوں پر اٹھانے کے قابل بنا دیتا ہے۔ یہ بچہ جب بازوئوں سے نکل کر زمین پر اپنا پائوں رکھتا ہے تو وہ کائنات کے ازلی و ابدی نظام کا حصہ بن جاتا ہے ۔ وہ ماں جس نے پیٹ میں پالا اور گود میں سنھبالا تھا وہ اب کچھ ہی عرصہ بعدجدا ہونے والی ہے مگر جس دھرتی ماں پر آج قدم رکھا ہے یہ پکا ساتھ زندگی بھر کا ہے۔ ایک ماں نے پرورش کرکے دوسری ماں کے سپرد کردیا ہے۔ دونوں مائوں میں فرق یہ ہے کہ پہلے والی نے بغیر طلب کئے تیری ہر ضرورت پوری کی ہے ، دوسری ماں کے پاس بھی تیرے لئے سب کچھ ہے مگر طلب کرنے پر دے گی جیسے تیری طلب ہوگی ویسا تجھے ملتارہے گا۔

انسان جتنا بھی دانا و بااختیار ہو جائے جذبات و احساسات سے عاری نہیں ہو سکتا ۔ بچپن میں والدین کی انگلی پکڑ کر گلیوں اور بازاروں میں چلتا رہا ، جن میدانوں میںکھیل کود کر جوان ہوا ، عمر بڑھی تو سب کچھ ماضی کا قصہ ہوگیا مگر یادیں رچ بس جاتی ہیں،یہی وجہ ہے کہ اپنے دیس سے ہزاروں میل دور عمر بسر کرنے والے آخری ایام میں اپنے دیس کی مٹی میں دفن ہونے کی وصیت کرتے ہیں۔ دھرتی ماں اور بیٹوں کا باہمی رشتہ ایک مضبوط بندھن ہے کہ زندگی کو درکار سب کچھ جس مٹی سے میسر آتا ہے اسے ہم دیس کہتے ہیں۔

انسان جتنا بھی دانا و بااختیار ہو جائے جذبات و احساسات سے عاری نہیں ہو سکتا ۔ بچپن میں والدین کی انگلی پکڑ کر گلیوں اور بازاروں میں چلتا رہا ، جن میدانوں میںکھیل کود کر جوان ہوا ، عمر بڑھی تو سب کچھ ماضی کا قصہ ہوگیا مگر یادیں رچ بس جاتی ہیں،یہی وجہ ہے کہ اپنے دیس سے ہزاروں میل دور عمر بسر کرنے والے آخری ایام میں اپنے دیس کی مٹی میں دفن ہونے کی وصیت کرتے ہیں۔ دھرتی ماں اور بیٹوں کا باہمی رشتہ ایک مضبوط بندھن ہے کہ زندگی کو درکار سب کچھ جس مٹی سے میسر آتا ہے اسے ہم دیس کہتے ہیں۔

دیس کو روندنے کے لئے جب بدیسی قومیں چڑھ دوڑتی ہیں تو اس کے بیٹے ،بیٹیاں اپنے سینوں کی ڈھال سے زندگی یا موت کا فیصلہ سنا دیتے ہیں،یہی فیصلے جب واقعات بنتے ہیں تو انسانوں کی تاریخ اور زمین کے جغرافیہ میں ڈھلتے ہیں۔ زندگی کا المیہ بھی یہی ہے اور اس کا حسن بھی اسی میں ہے۔

لفظ زندگی کی تعریف کریں تو یہ کائنات میں جاری حرکت ہی کہلائے گی مگر یہاں زندگی سے مراد انسان کا دنیا میں وجود ہے۔

شواہد بتاتے ہیں کہ انسان ہزاروں برس سے زمین پر آباد ہے مگر آج بابل(عراق) کے محلات اور مصر کے اہرام زبان حال سے ببانگ دہل اعلان کر رہے ہیں کہ قدیم انسانی تہذیب کے سرتاج ہم ہیں۔ زندگی کے دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ ایک اہم مسئلہ انسان کی صحت اور بیماری ہے جسے دانائوں نے حل کرنے کی کوشش کی ، اس طرح علم و فن طب وجود میں آیا ۔

آج سے تقریباً تین ہزار سال قبل ملک یونان کے دانا علاج معالجہ اپنے شاگردوں کو سکھاتے ہوئے باقاعدہ تحریر میں لائے ، اسی محنت کی بدولت یہ علم و فن انہی کے نام سے منسوب ہو کر طب یونانی کہلانے لگا جبکہ انہوں نے یہ علمی و فنی خزانہ قدیم بابلی ، مصری تہذیبوں سے حاصل کیا جن کی زوال پذیری اہل یونان کی ترقی کا ذریعہ بنی۔ صدیوں پرانا کھوج کرتے ہوئے اگر اس سے بھی آگے جائیں توتاریخ میں ایک نام حضرت ادریس علیہ السلام کا موجود ہے جوکہ پیغمبر خدا ہونے کے ساتھ ساتھ علاج معالجہ بھی فرماتے تھے مگر ہزاروں برس کی قدامت نے اس عہد کو دھند لا دیا ہے جبکہ آج سے تقریباًپچیس صد سال(2500) پہلے یونان میں حکیم بقراط علاج گاہ میں اپنے شاگردوں کے ہمراہ بیٹھے نظر آتے ہیں۔ یہ فن ان کا خاندانی تھا کہ والد بھی طبیب تھے مگر بقراط نے باقاعدہ تحریر میں لا کر شاگردوں کو سکھانا شروع کیا اسی زمانہ میں دوسری شخصیت حکیم سقراط بھی ہے جو اپنی دانائی و سچائی پر شہرت پا چکا تھا اس نے یونانی دیو مالائی داستانوں اور دیوتائوں کا انکار کرتے ہوئے اپنے فن کی سچائی پر اعتماد کیا ۔ وہ نعشوں کا مطالعہ کرتا ،شاگردوں سے تبادلہ خیال ہوتا، اسے تحریر میں لاتا جس سے علم تشریح الابدان (Anatomy) وجود میں آیا ۔

سقراط کے نظریات کے باعث اس طرز نو سے ڈرنے اور طرز کہن پر اڑے رہنے والے تمام مذہبی پیشوا جو سرکاری گدیوں کے مسند نشین بھی تھے ۔ ان کے مخالف ہوگئے بالآخر ایک عدالتی کارروائی میں انہیں سزائے موت کا حکم سنایا گیا جسے حضرت سقراط نے قبول کیا اور رواج کے مطابق زہر بھرا پیالہ پی لیا۔ جس پر اہل طب اسے سچائی کا شہید مانتے ہیں۔ ان سزائوں اور ایسی کارروائیوں سے یہ سلسلے کب رکتے ہیں۔ اب یونان اور روم میں ہزاروں شاگرد پیدا ہو چکے تھے جو اساتذہ کا علم تقسیم کررہے تھے ۔ یہ دور تھا جب ادویاتی ضروریات کی تکمیل کے لئے معدنیات و نباتات کو کوٹ پھاٹ اور رگڑ و گھوٹ کر قابل ہضم بنائی جاتی تھیں ۔ اس وقت لوگوں کے پاس سواری کے لئے گھوڑا ، ہاتھی ، اونٹ گدھا، جنگ میں تلواریں ، نیزے ، بھالے ، ڈھال اور ادویات کے لئے کونڈا ، ڈنڈا یا بھاپ کشید کرنے والے اور دیگر خود ساختہ آلات ہوتے تھے۔

دیسی طب

آدمی جس علاقہ میں پیدا ہوا ہو، اس کی صحت مند زندگی کا انحصار بھی اسی پر ہوتا ہے جسے سلجھائو سے استعمال کریں تو صحت مند رہیں گے ۔

قانون قدرت ہے کہ نطفہ (حیاتیاتی رطوبت) جب باپ سے ماں کے بطن میں آتا ہے تو بچہ وجود پاتا ہے ، پھر پیدائش ہوتی ہے تو وہ اسی زمین پر وان چڑھتا ہے اس کا رہن سہن جہاں انجام پاتا ہے وہاں کا ماحول اور خوراک معاشرتی خدوخال بھی بچے پر خاص اثر رکھتا ہے ۔ پہاڑی علاقہ میں پیدا ہونے والے بچے دیسی بودوباش رکھتے ہیں جو ان کے لئے صحت مندی کے متقاضی ہوں جبکہ میدانی علاقہ والے ویسا ہی مزاج پاتے ہیں اور جزیروں پر جنم لینے والے اسی ماحول کے عادی ہوتے ہیں سوائے استثنیات کے عموماً یہی اقوال غالب ہیں۔ قدیم بابل اور مصری تہذیبوں سے سیراب ہو کر قلم بند ہونے والی طب یونانی یقینا بہت بڑا سرمایہ ہے ۔ مگر ان قدیم خدمات میں ہندوستان کا بھی حصہ موجود ہے جہاں پانچ ہزار سال(5000)پہلے موجود انسانی تہذیب کے آثار ہڑپہ( ساہیوال)، موہنجو دڑو، چولستان سندھ وار، ٹیکسلا کی صورت میں موجود ہیں۔ درست ہے کہ یہ تہذیبیں آج مٹی کے ٹیلوں میں دفن ہیں جبکہ اسی کی ہم عمر تہذیب رواں دواں زندگی کی شکل میں آج بھی موجود ہے جس کی مثال پنجاب کے شہر ملتان، سیالکوٹ ، لاہور ، دیپال پور اور پاکپتن وغیرہ ہیں۔ مؤرخین نے ان شہروں کو بھی اتنا ہی قدیم تسلیم کیا ہے ۔یہاں کے دانائوں نے بھی جڑی بوٹیوں (سونف، پودینہ، ادرک ، نیم، ببول، برگد ا ور ہرڑ وغیرہ کے خواص معلوم کئے اور اس سے بڑھ کر دھاتوں ، چاندی ، سونا ، تانبہ ، لوہا ،پتھروں ، عقیق، یاقوت، الماس، زمرد، وغیرہ کے خواص معلوم کرکے انھیں قابل ہضم بنا کر ایک طریقہ علاج آیورویدک متعارف کروایا جس کی مقدار خوراک بہت کم اور تاثیر بہت قوی ہوتی ہے۔

پرانے دور میں لکھنے کا ہنر بہت محدود تھا کاغذ ابھی ایجاد نہیں ہوا، مجربات و واقعات زبانی محفوظ ہوتے یا پتوں اور کھالوں پر علامتی نشان بنائے جاتے جن کی عمر مختصر ہوتی، پھر معدوم ہو جاتے۔دوسری صورت حملہ آوروں کی یلغاریں بھی علوم وفنون کی قاتل ثابت ہوئیں۔ علاقوں اور قبیلوں کی باہمی لڑائیاں بھی اس سرمایہ کو راکھ بناتی رہیں۔

سلطنت یونان عہد قدیم میں اعلیٰ معاشرت کا نمونہ بن چکی تھی جس نے حکومتی نظم و نسق ، تعلیم ، صحت اور کھیلوں کی شروعات کیں جو آج بھی اولمپک کی صورت میں جاری ہیں۔ اہل روم کو یونان کی ترقی سیخ پا کرنے لگی، حسد و بغض کے شعلے بھڑکنے لگے انہوں نے میدان جنگ گرم کیا اور پھر وہ سب کچھ شعلوں کی نذر ہوگیا جس پر انسانیت نازاں تھی، بہت کچھ برباد ہوگیا ۔ البتہ ایک حکیم جالینوس محفوظ ہے۔

اہل زمین کے لئے صدیوں پر محیط تاریک رات شروع ہوئی جس میں جبر ہی جبر ہے۔ قانون قدرت کی کارفرمائیاں کہ بالآخر رات کاخاتمہ سویرسے ہی ہوتا ہے ۔ ایک لمبی رات کی کوکھ سے دھرتی کے ایک جانب یرو شلم میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی ۔ رحمت خداوندی نے بیماریوں سے معذور ، کراہتی انسانیت کے لئے شفائے عام کی ہوائیں چلائیں ۔ بندوں کو ایک مسیحا مل گیا ، وہ جسمانی مریضوں کو شفا بخشتا، ذہنی مریضوں کو راہ راست کی تلقین فرماتا ، عوام اسی جانب کھچے چلے آتے ہیں، ان کی تعظیم و تکریم روز بروز بڑھ رہی ہے مگر اس دور کے وڈیروں ، مسند نشینوں کو یہ منظر نہیں بھاتا۔ وہ اسے صفحہ ہستی سے مٹانے کے درپے ہوئے، ظلم و جبر کی مشینری کو متحرک کیا، اب یہ حق پرست گروہ اپنی حفاظت میں غاروں، زیر زمین سرنگوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہوگیا۔ دنیا پھر گھٹا ٹوپ اندھیروں کی نذر تھی،ملک، قوم ، قبیلے، اپنی اپنی طاقت آزمائی کرنے اور ایک دوسرے کو مغلوب کرنے میں کوشاں ہوئے۔ ان حالات میں عوام الناس محض ایندھن بن کر رہ گئے ، طاقت وروں کے جبر نے یہ زندگی اجیرن کردی ۔یہ عرصہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد تقریباً پانچ سو سال کا ہے ۔ لمبی رات زمین پر چھاگئی کہ چھٹی صدی عیسوی کی ساتویں دہائی آپہنچی، رب العزت نے بندوں کی آہ و زاریوں اور زبوں حالیوں کو خوش حالیوں میں بدلنے کا ارادہ فرمایا، سرز مین عرب کے شہر مکہ میں حضرت محمدe پیدا ہوئے ۔ عرب وحشتوں میں گندھا ہو ا، جاہلانہ رسوم کا مرقع سخت گیر معاشرہ جس میں ایک قبیلہ بنو ہاشم ان جاہلانہ لغویات سے بے نیاز ’’کعبۃ اللہ‘‘ کے زیر سایہ بطور موحد زندگی بسر کرنا چاہ رہا تھا ان کے ایک نوجوان نے انقلاب کا اعلان کردیا ۔ چند دوستوں نے زندگی بھر ساتھ دینے کا عہد کیا، یوں ایک گروہ بن گیا ، جسے مزید ساتھی میسر آئے تو جماعت تیار ہوگئی۔ اس نے جہالت و وحشت کو یوں للکارا کہ رفتہ رفتہ جاہلانہ رسم و رواج اپنی موت آپ مرنے لگے۔

نور العالمین سے اجالوں نے انسانیت کا احاطہ فرما لیا۔ ایک نیا معاشرہ وجود پاگیا ۔ زندگی کے بہترین اصول وضع ہوئے، اصولوں میں ایسی پائیداری ہوئی کہ مساوات کا عملی نمونہ قائم ہوا اور ایک فلاحی مملکت وجود میں آئی۔

اس عہد کی خوبی تھی کہ کمزور طاقت ور ہوگئے ۔ طاقت ور انسانیت کا نمونہ بن گئے ، اس طرح امن و آسائش کی بارش ہوئی تو صاحبان علم وفن کی گرہیں کھلنے لگیں۔زندگی کو آسان اور حسین بنانے والے علوم وفنون پھیلنے پھولنے لگے۔ علم طب پر بھی بہاریں آگئیں ، محمد بن زکریا الرازی، ابو القاسم الزھراوی، شیخ ابن سینا جیسے جید حکماء نے علم طب کے قوانین بناتے ہوئے انہیں باقاعدہ مرتب کیا ۔ جابر بن حیان نے علم معدنیات میں ایسی روح پھونکی کہ وہ سائنس بن گیا ۔ علم العلاج میں یہی جدید سائنس کی ابتدا تھے۔

بغداد (عراق) میں خلیفہ وقت نے باقاعدہ ہسپتال بنانے کا ارادہ کیا جگہ منتخب کرنے کے لئے اطباء سے مشورہ کیا تو انھوں نے کمال دانائی سے شاندار ترکیب پر جگہ منتخب کی۔ یوں کہ شہر کی مختلف جگہوں پر گوشت کے ٹکڑے رکھ دیئے ،کچھ وقت گزرنے کے بعد ان کا جائزہ لیا جس ٹکڑے میں عفونت سب سے کم تھی وہاں ہسپتال بنایا گیا ،یہاں مرد اطباء کے ساتھ خواتین بھی مامور تھیں۔ مسلمان بطور حکمران تقریباً نو صد سال تک کسی نہ کسی صورت دنیا پر غالب رہے۔ جدید دور کی ابتداء ہوچکی تھی ،نت نئی ایجادات نے زمانہ کی رفتار بدل دی ، شفاخانوں نے باقاعدہ سرکاری شعبہ کی شکل اختیار کی ۔ علم العلاج پر وسیع تجربات ہونے لگے اس دور کے اطباء نے انسانی صحت کے لئے بہت سی ناگواریوں کو برداشت کیا ، مثلاً انسانی جسم میں تیزابی یا الکلائن مواد چیک کرنے کے لئے پیشاب کو زبان سے چکھتے آج لیبارٹریوں میں پیپر یہ کام کرتا ہے تو یہ کام انہی اطباء کی کوششوں سے ممکن ہے۔

دیسی طب زمانہ قدیم سے آج تک ہر قسم کے علاج معالجہ کو بنیاد فراہم کرتی ہے۔ تحقیق و تفہیم سے نئی ایجادات و طریق علاج آتے رہیں گے مگر جسم انسانی کے لئے جو ہمہ جہت افادیت دیسی طب کے صدیوں پرانے مرکبات، لبوب، جوارش ، خمیرہ ،جوشاندہ وغیرہ میں ہے، اس کی مثال کم ملے گی۔

مسلم بادشاہتیں تغیر وتنزل سے دوچار ہوتی رہیں ، ظلم و جور کی لہریں بھی آئیں مگر وحشت و جہالت کے اندھیرے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوگئے ۔ علم و آگہی کا کارواں کبھی تیز کبھی سست رفتار سے بہر طور رواں دواں رہا۔

علم وفن کسی فرد، قوم ، قبیلہ کی وراثت نہیں جو لوگ خداداد صلاحیت یا فکر و محنت سے آراستہ ہوتے ہیں ،انہی کا حق ہے اور مخلوق کی بھلائی ہو تو ترقی نصیب ہوتی ہ

دیسی طب کا سفر بھی ایسا ہے جو نباتات و جمادات کے سفوف سے شروع ہو کر عرق، نمک، سپرٹ اور ٹنکچر تک پہنچا، یہاں تک کہ 1920ء میں پنسلین ( پھپھوندی) دریافت ہوئی تو جراثیمی بیماریوں کے خلاف ایک مؤثر دوا مل گئی ۔ آج ضد الحیات (Anti Biotic) کا انبار موجود ہے، مستعمل ہے، جبکہ معالجین سوچ رہے ہیں کہ اب جراثیم مارنے کی بجائے قوت مدافعت بڑھانے والی ادویات سے علاج ہونا چاہیے۔

آج کل ایک نام طب نبوی ، طب اسلامی پڑھنے سننے کو ملتا ہے جس کا لب لباب یہ سمجھا جارہا ہے کہ کھجور، کلونجی اور شہد وغیرہ جیسی ادویہ و اغذیہ کا بطور دوا استعمال کرنا شاید ہی طب نبوی یا اسلامی ہے۔ واضح رہے کہ پیغمبران خدا کی بعثت کا مقصد صرف روحانی بیماریوں کے تدارک کے لئے خدا پرستی کی تلقین اور بندوں کے اخلاق درست کرنا ہی نہیں تھا بلکہ پوری زندگی کی جسمانی ، معاشرتی اور نفسیاتی بیماریوں کا علاج معالجہ یا دیگر علوم وفنون سے روشناس کرانا جو الہامی علوم کے بعد ثانوی حیثیت رکھتے ہیں، ان میں صحیح سمت کی طرف راہنمائی بھی ہے۔

طب ایک علم وفن ہے، اسے ایک ذریعہ علاج ہی سمجھنا چاہیے۔

دین، ایمان اور مذہب کو بطور دنیاوی ضروریات کی تکمیل استعمال کرنا اسلام نہیں ہے ا لبتہ علاج و معالجات کے عمل میں شفاو برکت کے حصول کے لئے اسے نور ہدایت نبوت سے جوڑنا لائق صدتحسین ہے۔

ہر کمال را زوال کے مصداق پندرھویں صدی عیسوی تک مسلمان بادشاہتیں کمزور ہو کر یورپی اقوام کو دعوت جہانبانی دے رہی تھیں۔پرتگال ، فرانس، برطانیہ اور اٹلی نے امریکہ، آسٹریلیا، افریقہ اور ایشیاء پر قابض ہونا شروع کیااور تین صدیوں میں دنیا کے اکثر علاقوں پر قبضہ جمائے رکھا۔

اس وقت بر صغیر ہندوستان بہت سی چھوٹی بڑی ریاستوں میں تقسیم ہوچکا تھا ۔ برطانوی پالیسی سازوں نے ’’ایسٹ انڈیا کمپنی‘‘ کی صورت میں دیسی ریاستوں کو آپس میں ایسے ٹکرایا کہ کمزور ہو کر خود بخود انگریزی عمل داری قبول کرنے لگیں۔

ہندوستان میں مرکزی حکومت برائے نام رہ گئی۔ عظیم الشان ماضی اور مضروب و مخدوش حال کا بادشاہ’’بہادر شاہ ظفر‘‘ اپنے انجام تک پہنچنے کو تیار تھا۔ دیسی عوام نے دھرتی سے محبت اور آزادی کے لئے علم بغاوت بطور آخری کوشش1857ء میں بلند کیا ،جس میں بہت سے گمنام ہیروز کے ساتھ ساتھ سر فہرست ریاست میسور کے والی سلطان ٹیپو شہید پنجاب کا عظیم سپوت مہاراجہ رنجیت سنگھ اور پنجاب میں دریائے چناب ، راوی، ستلج کے مقامی قبائل رائے احمد خاں کھرل شہید ، مہرمراد فتیانہ اور نادر قریشی وغیرہم نے غلام بن زندہ رہنے سے آزادی کی موت کا انتخاب کیا ۔ ایسے ہی بہادروں کے سکھائے ہوئے سبق نے انگریز کو براہ راست عوام پر حکومت کی بجائے ریاستی ، نوابی اور جاگیر داری نظام کورواج دیا۔ ہندوستان بالخصوص پنجاب اور سندھ کے علاوہ عرب اور ترک علاقوں پر قبضہ کے بعد یہاں کے محب وطن افراد ، علماء ، مشائخ اور ہنر مند افراد کو تہہ تیغ کرکے مال و زر کی لوٹ کھسوٹ شروع کی ۔ قدیم طبی سرمایہ بہت عرصہ پہلے ہی یورپین کے ہاتھ آچکا تھا ۔ غالب قوم کے لئے یہ زمانہ ترقیوں کی نوید تھا ۔ مغربی دانشور جدید علاج و ادویات پر محنت کشاں ہوئے تو ایلو پیتھک نے وجود پایا۔

عالمی سطح پر انسانیت کا جسم 1914-18ء اور 1939-1945ء کی جنگ میں بھی لہولہان ہوا مگر اس کے بعد ترقی وخوشحالی کا پہیہ بدستور رواں دواں ہے ۔ دنیا اگر جنگ کی سلگتی چنگاریوں کے بھڑکنے سے محفوظ رہ پائی تو یہ کارواں چلتے رہیں گے۔ اہل ہمت اپنی فکر و محنت سے اذیتوں کی دوا اور زخموں کا مرہم بناتے رہیں گے ۔ سفر ہنوز جاری ہے امید ہے ہمیں سوئی (Needle)کی اذیت سے بھی نجات ملنے والی ہے ۔دوا اس قدر سریع النفوذ ہوں گی کہ جسم پر لگتے ہی داخل ہو جائے گی۔ یہ بھی جلد ہونے والا ہے کہ آدمی ایک ڈبہ کو مس کرے تو سارا جسمانی ریکارڈ سامنے ہوگا۔ پھر اسی ڈبہ کے دوسرے خانہ کو ہاتھ لگانے سے علاج تامہ بھی سامنے ہوگا ، یہ ڈبے میرے دیس کے بازاروں ، چوک، چوپالوں پر نصب ہوں گے کہ لوگ وقت صرف کئے بغیر اپنے امراض سے نجات پائیں گے۔

یہ سب اس وقت ممکن ہے جب عوام باشعور اور حکمران اعلیٰ انسانی کردار کا نمونہ ہوں۔ جس قوم کو یہ انعام نصیب ہوا اس نے زمانہ کی امامت کی ہے۔ یقینا اپنا دیس، اپنے لوگ اور اپنی سوچ ہی اپنے مسائل حل کرتی ہے ۔

مآخذ

تاریخ طب ڈاکٹر زاہد اشرف ( تمغۂ امتیاز)۔

طب کا ارتقاء ڈاکٹر شہنشاہ زیدی۔

نابر کہانی(پنجابی) پروفیسر سعید بھٹہ۔

طبیب حسن احمد

٭…٭…٭

دیسی لوگ، دیسی طب
Tagged on:             

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *