
یکم جنوری1943ء کو سائنس دانوں نے ایک انتہائی حیرت انگیز مادہ”ڈی این اے”(DNA) دریافت کیا۔ جس نے نوع انسانی کی فکر کو بالکل بدل کر رکھ دیا ۔ اس حیرت افزا دریافت کو 78برس گزر چکے ہیں،لیکن ارتقائی عمل سے متعلق تمام مطالعے اور تجزیے اسی دریافت شدہ مادے کے تناظر میں کئے جاتے ہیں۔
برسوں پہلے سائنس دانوں کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ ڈی این اے کیا ہے اور کہاں ہے ، لیکن شب و روز کی تحقیق کے بعدا نہوں نے معلوم کرلیا کہ انسانی جسم کا ہر حصہ خلیات سے بنا ہوا ہے ۔ ہڈیوں اور گوشت سے لے کر ناخن ، بال، خون اور تھوک تک میں خلیات موجود ہوتے ہیں۔ ہر خلیے میں ایک مرکزہ(Nucleus) ہوتا ہے اور مرکزے کے اندر مورثے (Genes) ہوتے ہیں، جو زندگی کے لئے بے حد ضروری ہیں۔
مورثہ(Gene) بھی ڈی این اے ہی کی ایک پیچیدہ شکل ہے، جو والدین کی عادات و خصائل ، خصوصیات اور شکل و شباہت بچے میں منتقل کرنے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ مورثے کے مطالعے ہی کو جینیاتی سائنس کہا جاتا ہے ۔ ڈی این اے کا پورا نام ” ڈی او کسی رائبو نیو کلیک ایسڈ” (Deoxyribonicleic Acid) ہے۔
ہر انسان کے خلیے میں ڈی این اے کی ایک خاص قسم کی ترتیب ہوتی ہے ، جو دنیا کے کسی دوسرے فرد سے نہیں ملتی ۔ جس طرح ایک فرد کی انگلی کے نشان دنیا کے کسی دوسرے فرد سے نہیں ملتے ، اسی طرح ایک فرد کے ڈی این اے کی ترتیب بھی دنیا کے کسی فرد سے نہیں ملتی۔ خلیے کے مرکزے میں مورثہ(Gene)اور مورثے کے اندر ڈی این اے ہوتا ہے۔ مورثے چونکہ کروموسوم(Chromosome) کے بہت نزدیک ہوتے ہیں، لہٰذا موروثی خصوصیات اور صلاحیتوں کو منتقل کرنے کا کام انجام دیتے ہیں۔
ڈی این اے کی بنیاد پر کسی بھی زندہ یا مردہ فرد کے جسم کے کسی بھی عضو (Organ)یا کسی بھی حاصل شدہ خلیے کے ذریعے اس کی بآسانی شناخت کی جاسکتی ہے ۔ یہ ایک جامع طریق کار ہے ، جسے طبی اصطلاح میں ”سالماتی حیاتیات یا جینیات”(Molecular Biology or Genetic)کہا جاتا ہے۔ ڈی این اے ایک سالمہ (Molecule)ہے، جو تمام جان داروں کے خلیات میں پایا جاتا ہے ۔ ہر انسانی خلیے کے مرکزے میں ڈی این اے ایک دوسرے سے لپٹی ہوئی دو ڈوریوں کی شکل میں موجود ہوتا ہے۔
جس طرح ایک کمپیوٹر کے اندر کوڈ(Code)ہوتا ہے اور جس کی بنیاد پر وہ مختلف قسم کے کام سرانجام دیتا ہے ، بالکل اسی طرح ہر جان دار کے ڈی این اے میں ایک سالماتی کوڈ ہوتا ہے ، جس کے اندر اطلاعات ، احکام اور معلومات کا ذخیرہ پنہاں ہوتا ہے۔ سائنس دانوں کے مطابق ہر جان دار کا ڈی این اے مختلف جینیاتی تبدیلیوں کی بنیاد پر انسان کی جلد ، بالوں کا رنگ اور چہرے کی ساخت کو دوسرے فرد سے مختلف کردیتا ہے اور موروثی خوبیاں یا خامیاں بھی اسی کے تحت ہوتی ہیں۔ آج کل ماہرین صحت متعدی اور موروثی امراض کے اسباب معلوم کرنے کے لئے ڈی این اے کی مدد لے رہے ہیں۔ مختلف قسم کے تعدیے (انفیکشنز)، دق وسل (ٹی بی)، ٹائیفائیڈ ،ہیپا ٹائٹس، ڈینگی اور سرطان جیسے مہلک امراض کی تشخیص کے لئے ایک خاص قسم کا ٹیسٹ کروایا جاتا ہے ، جس میں بنیادی طور پر ڈی این اے کا کوڈ ہی معلوم اور شناخت کرکے مرض کا سبب دریافت کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں سالماتی حیاتیات کے ذریعے اب امراض کی تشخیص میں بہت آسانی ہوگئی ہے ۔ دنیا بھر میں موروثی امراض کی تشخیص کے لئے سالماتی حیاتیات کی لیبارٹریوں کا قیام لازمی قرار دیا جارہا ہے۔ پاکستان میں بھی ایسی لیبارٹریوں کے قیام کی اشد ضرورت ہے۔
ڈی این اے ایک ایسی جدید و مفید ترین تکنیک ہے جو امراض کی تشخیص کے علاوہ جرائم کی تفتیش اور پیچیدہ و مشکل کیسز کو حل کرنے کے لئے بھی استعمال کی جارہی ہے۔ ماضی میں کئی مشکل کیسز اس تکنیک کو استعمال نہ کرنے کے باعث حل نہیں کئے جاسکے۔ ڈی این اے کی حیرت انگیز دریافت نے جینیات سے متعلق فرسودہ و لایعنی تصورات سے نجات دلادی ہے اور حیاتیات کے علم کا راستہ بالکل تبدیل کردیا ہے۔ اس مادے کی بدولت مورثے کے بارے میں جدید معلومات سے حیرت آفریں کام کئے جارہے ہیں، مثلاً پھلوں کا ذائقہ تبدیل کیا جاسکتا ہے ، موروثی امراض کا سراغ لگایا جاسکتا ہے اور قتل و غارت گری و زنا بالجبر کے مجرموں کو بآسانی شناخت کیا جاسکتا ہے۔ ڈی این اے فنگر پرنٹنگ کی سہولت کی بدولت اب مجرموں کا سراغ لگانا بہت آسان ہوگیا ہے، جو عام مروج فنگر پرنٹ اور خون کے عام لیبارٹری ٹیسٹ سے اتنا آسان نہ تھا ۔ دنیا ئے سائنس میں ڈی این اے نے انقلاب برپا کردیا ہے۔

عمران سجاد
٭…٭…٭