
ادارہ ہمدرد وپیم (PAEM)کے منتظمین کا شکر گزار ہوں جنہوں نے قومی طبی کونسل کے اہم اجلاس اور طبی سیمینار جس میںعالم اسلام کے ایک منفرد، بے مثل ، انمول فلسفی، طبیب ، شاعر ،مفکر اور محقق کے بارے گفتگو کا موقع فراہم کیا ہے۔ وہ شخصیت جسے زمانہ ابن سیناؒ کے نام سے یاد کرتا ہے اور جس کی تحریریں صدیوں کے سفر اور گردش لیل و نہار کے باوجود صرف مسلمانوں کے لئے نہیں بلکہ تمام انسانوں کے لئے مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ بقول جارج مارٹن ’’وہ تمام نسلوں، تمام مقامات اور تمام زمانوں کا مشہور سائنس دان ہے، ابن سیناقرون وسطیٰ میں علوم کی معراج ہے۔‘‘
اس نابغۂ روزگار شخصیت کے بارے میں اتنے قلیل وقت میں طویل گفتگو ممکن نہیں جس کے متعلق تقریباً ایک ہزار سال سے علمی،فکری اور تحقیقی نگارشات کا سلسلہ جاری ہے، اس کے کس کس پہلو پر گفتگو کی جائے یہی کہہ سکتا ہوں کہ علماء و فضلا کے اس اجلاس میں مجھ جیسے ناقص علم کے طالب علم کی یہ مختصر گفتگو خریداران یوسف میں نام لکھوانے کی ایک ادنیٰ سی کوشش ہے۔ اگر میری گفتگو میں کوئی خامی، کوئی کمی ہو تو از راہ ِنوازش’’جائے استاد خالی است‘‘ کے مصداق میری اصلاح فرما دیجئے گا میں شکر گزار ہوں گا۔
جہاں تک ابن سیناؒ کی اہم اور بے مثل تحریر کردہ فنی و علمی کتاب’’ القانون فی الطب‘‘ کے بارے میں میرے فاضل دوست مختلف پہلو اجاگر کررہے ہیں ، وہا ں مجھے ’’ موجودہ سائنسی دور میں کلیات کی اہمیت و افادیت‘‘ کے بارے میں کچھ عرض کرنا ہے۔
اس موضو ع پر جوں ہی قلم اٹھایا تو مجھے محسوس ہوا کہ بادشاہی مسجد لاہور کی سیڑھیوں کے بائیں طرف ایک مختصر سی آرام گاہ سے مسلسل یہ آواز آرہی ہے ۔
مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آباء کی جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارہ
یورپ والے ان علم کے چراغوں سے خود کو منور کرکے ہمارے منور چراغوں کو بے نور کررہے ہیں تو ایک طرف غنی کا شمیری کے یہ چشم کشا الفاظ کانوں میں باز گشت کرتے ہوئے معلوم ہوئے۔
غنی روزِ سیاہ پیر کنعاں را تماشا کن
کہ نورِ دیدہ اش روشن کند چشم زلیخارا
مسلمانوں کے عروج و زوال کی داستان نگاہوں کے سامنے گھوم گئی، آئینہ میں قرون وسطیٰ کے دور میں یعقو ب الکندی ، ربن الطبری صاحب فردوس الحکمت ، ابو القاسم الزہراوی، البیرونی ، ابن بیطار، محمد زکریا الرازی ، علی بن عباس المجوسی، ابن سینا ، ابن رشد، ابن نفیس اور دیگر اکابرین کا قافلہ ہائے علوم وفنون نظر آیا جس میں ابن سینا اپنی علمی وجاہت کے اعتبار سے روشن قندیل لئے قافلہ سالار کی حیثیت سے سب سے نمایاں اور قد آور نظرآیا۔ چہار مقالہ کے مصنف نظامی عروضی سمر قندی کو اطباء کے تذکرہ میں اس جلی کتبہ کے ساتھ راہنمائی کرتے دکھائی دیا’’ اگر بقراط اور جالینوس زندہ ہو کر دوبارہ اس دنیا میں آسکیں تو یقین کیجئے اس کتاب( القانون فی الطب) کا احترام کرنے پر مجبور ہوں گے۔‘‘
بیسیویں صدی عیسوی کا ابتدائی دور یورپ کی نشاۃ ِثانیہ کے طور پر سب سے نمایاں ہے۔ مسلمان فلسفیوں اور ان کی علمی خدمات سے خوشہ چینی کرکے یورپ سے اندھیرے چھٹ رہے تھے ، ان کی درس گاہیں جدید علوم کے لئے دنیا کے کونے کونے سے تشنگان علم کو اپنی مادی ترقی سے خیرہ کررہی تھیں، لیکن ابھی اسلام اور اسلامی مفکرین سے نفرت اور تعصب کی وہ عینک جو علوم کا سرقہ کرنے کے بعد یورپ کے اساتذہ نے پہن لی ہے ، وہ ایجاد نہیں ہوئی تھی۔ ایسے میں کیمرج(Cambridge)یونیورسٹی میں میڈیکل کے پروفیسر جناب ایڈورڈ جی برائون ایف .آر.سی.پی نے 1919ء میں اپنے ایک لیکچر میں ابن سینا کے علمی مقام کو ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا۔
’’ارسطو کے بعد 15صدیوں تک کوئی ایسا فلسفی دنیا میں نہ آیا جو اس کی تعلیم کی گہرائیوں تک پہنچا ہو اور جس نے وہ مرتبہ حاصل کیا ہو جس پر ارسطو فائز تھا۔ بالآخر افضل المتاخرین میں فلسفی مشرق آیت اللہ من آیات اللہ علی حسین بن عبداللہ بن سینا پیدا ہوا تو اسے یہ شرف حاصل ہوا۔‘‘
اسی دور میں کسی نے ابن سینا کے فلسفہ مابعد الطبیعات اور روح پر تنقید کی جی برائون اسے برداشت نہ کرسکے اور ان الفاظ میں گرفت کی۔
’’جو شخص ان دو جلیل القدر (ارسطو اور ابن سینا ) ہستیوں پر نکتہ چینی کرے گا وہ اپنی ذات کو عقل کی محفل سے باہر پھینک کر پاگلوں کے زمرہ میں داخل کرے گا اسے خرد باختہ سمجھا گا، وہ اپنے آپ کو صرف بے وقوفوں کی صحبت کے قابل بنائے گا۔‘‘
شیخ الرئیس کی القانون فی الطب طبی معلومات کا لازوال خزینہ، ان کے دور سے پہلے ادوار کے یونانی ، ہندی ، عربی فلسفیوں کے سارے کام کو یکجا کرکے اور علمی سطح پر کھنگال کر وسیع اور گہری نظر مختصر مگر جامع انداز میں طب کے مستقل اور مستقبل کے مسائل کے حل تک رسائی کی ایک لازوال اور منفرد کوشش ہے جو صدیاں گزرنے کے باوجود آج بھی Light House کی حیثیت سے علم کے سمندر میں راہنمائی دے رہا ہے۔
چودہویں ، پندرہویں اور سولہویں صدی میں یہ واحد کتاب ہے جس کے مختلف زبانوں میں سینکڑوں ایڈیشن شائع ہوئے اور جسے بائبل کی طرح اہم کتاب کا مقام حاصل رہا۔ سترہویں صدی کے آخر تک یہ نصابی کتاب کی حیثیت سے میڈیکل کالجوں کی تعلیم میں سب سے زیادہ پڑھائی جانے والی کتاب تھی۔ اب تک کی تحقیق کے مطابق دنیا بھر کے 22سے زائد مؤلفین نے اس کتاب کے مختلف حصوں بالخصوص کلیات کے تراجم شائع کئے ہیں، اس کتاب کی شرح اور ترجمہ کرنے والے بھی آج علمی دنیامیں اہم مقام رکھتے ہیں، تو اس کتاب کے حقیقی خالق کو کون بھلا سکتا ہے؟
980عیسوی میں پیدا ہونے والی یہ شخصیت ابتدائی دس بارہ سال میںمروجہ علوم پر عبور حاصل کرنے کے بعد طب کا علم حاصل کرنے کی طرف متوجہ ہوتی ہے اور 16سال کی عمر میں اپنے فنی ، عملی و علمی مقام کی بدولت وقت کے بادشاہ کے علاج کا اعزاز حاصل کرتی ہے۔
مادری زبان فارسی ہونے کے ساتھ ساتھ عربی زبان پر عبور۔ ابن سینا ہی کو یہ مقام حاصل ہے کہ اپنی مختصر زندگی جو صرف 57سال پر محیط ہے جس میں وزارت عظمیٰ کا قلمد ان بھی ہے، قیدو بند کی صعوبت بھی ہے، شاہی دربار میں غلامی کی زندگی سے بچنے کے لئے جلا وطنی کا سفر بھی ہے حیرت ہوتی ہے کہ ایک تحقیق کے مطابق 416 کتب عربی زبان میں اور 23فارسی زبان میں جن میں کئی کتب 18سے 20جلدوں پر محیط ہیں کب اور کیسے لکھی گئیں، وہ دور پر نٹنگ کا دور نہیں تھا ، قلم کی مدد سے اور مدہم سی لائٹ میں جو اس وقت میسر تھی (غنیمت ہے کہ لوڈشیڈنگ نہیں تھی) میں اتنا علمی کام۔ یہ تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں کہ خدادداد صلاحیتوں کو خدائی مدد سے بروئے کار لایا گیا۔ تسلیم کرنا پڑتا ہے اللہ جسے چاہتا ہے حکمت کی خیر کثیر سے نوازتا ہے۔
القانون فی الطب کے مطالعہ سے تاریخ کے طبی سفر کو ان الفاظ میں سمویا جاتا ہے ۔’’ علم طب معدوم تھا بقراط نے اسے ایجاد کیا اور ’’ابو الطب‘‘ کہلایا۔ بعد میں مردہ ہوگیا تو جالینوس نے اسے حیات نو بخشی لیکن یہ فن غیر مربوط رہا، رازی آئے تو اسے مربوط کیا مگر ناقص رہا۔ بوعلی سینا پیدا ہوئے تو اسے پایۂ تکمیل تک پہنچایا اور تاریخ طب میں ’’معلم ثانی‘‘ کہلائے۔

القانون اور اس کے حصہ کلیات پر مختصر نظر
طبی موضوع پر ادویہ قلبیہ جو کہ آج کے دور میں بھی امراضِ قلب میں راہنما کتاب ہے اور دیگر تمام موضوعات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے آج کے زیر بحث موضوع کے پیش نظر اگر دیکھا جائے تواس کتاب کو صرف کلیات میں بیان کردہ امور طبیعیہ بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔
امورِ طبیعہ میں بیان کردہ (1) ارکان، (2)مزاج، (3)اخلاط، (4)اعضاء مفرد ، مرکب، (5)قویٰ وا رواح۔ (6) افعال کا اتنی تفصیل سے بیان کیا گیا کہ صرف مختلف موضوعات کے Heading چھ سو سے زائد بنتے ہیں ان کو بیان کرنے کا نہ موقع ہے نہ وقت۔
آج کے ترقی یافتہ دور میں جسے سائنسی کہا جاتا ہے ، جدید طریقہ علاج کا عمل ، لیبارٹری اور دیگر ذرائع تشخیص و تحقیق پر منحصر ہے۔ لیبارٹری میں تمام امراض کی تحقیق پیشاب اور خون کے ٹیسٹ کے ذریعہ ہوتی ہے۔ ابن سیناؒ نے کلیات میں پیشاب کے رنگ، قوام، مقدار، بو اوررسوب کے ذریعہ تحقیق کی جو راہنمائی دی ہے وہ آج کے خورد بینی اور کیمیاوی ا متحانات سے کہیں زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ وہ خود پیشاب کو دیکھ کر امراض کے علاوہ اس حد تک نشان دہی کردیتا تھا کہ یہ کسی انسان کا پیشاب ہے یا حیوان کا؟ مرد کا قارورہ ہے یا عورت کا ؟ عورت حاملہ ہے یا نہیں؟ حمل ہے تو کتنے عرصہ کا؟ کیا جدید لیبارٹری اس پر قادر ہے؟ خون کا ٹیسٹ بلا شبہ جدید امراض کی نشان دہی کرتا ہے تاہم ابن سیناؒ نے مفاصلی ،جلدی ،خواتین اور بچوں کے امراض کے علاوہ بول زلالی ، ذیابیطس ، خون کے رنگ وقوام سرخی ،چمک او رانجماد کے معیار پر جدید لیبارٹری کی نسبت زیادہ راہنمائی کی ہے۔
ا رکان اربعہ اور اخلاط اربعہ کی علمی بحث طب کا اہم موضوع رہا ہے۔ دو ، تین یا چار ارکان آگ ، پانی ،مٹی اور ہوا آج بھی فزیکل اور بائیو لاجیکل اور بائیو کیمیکل علوم میں خاص اہمیت رکھتے ہیں تاہم جدید کیمسٹری کے ایک سو سے زائد عناصر) (Eementکا تعلق اس فلسفہ سے نہیں۔
انسانی زندگی کے تمام افعال اعضاء اور قویٰ کے محتاج ہیں۔ اعضاء میںعضلات، مفرد ومرکب اعضاء ان کی ساخت ، ان کے افعال ، اناٹومی میں جسم انسانی میں ہڈیوں کی تعداد اور ارادی و غیر ارادی افعال وغیرہ تمام میں قویٰ کا کردار اہم ہے۔ ان طبعی، نفسانی اور حیوانی قویٰ پر تمام مباحث بڑی تفصیل سے راہنمائی دیتی ہے۔ صدیاں گزرنے کے باوجود بھی ابن سیناؒ نے جن امور میں راہنمائی کی آج بھی وہ مسلمہ حقیقت ہیں۔ روح اور حرارت غریزی کے وہ تصورات جو اس فلسفی نے بیان کئے ہیں ان کی اہمیت آج بھی مسلم ہے۔ روح کے بغیر جسم کو مردہ قرار دیا جاتا ہے، زندگی میں رعنائی اور جذبات و امنگ ، سلسلہ حیات کا دوام بخشنے والی روح اور حرارت غریزی کے چراغ میں روغن اور تیل کی حیثیت رکھنے والی رطوبت غریزی کو شیخ الرئیس نے بڑے واضح انداز میں بیان کیا ہے۔
اگر ایک ڈاکٹر آج کے جدید دور میں تحقیقات مرض کے لیے تھرما میٹر ، ایکسرے، سٹیتھو سکوپE.T.T,E.C.G اینڈو سکوپی،Digital X_Ray، الٹر ا سائونڈ، انجیو گرافی اور دیگر تمام آلات اورسائنسی ایجادات کو استعمال کررہا ہے تو اس میں ڈاکٹر کا کمال نہیں ، اگر ایک موٹر سائیکل سوار ، کار سوار، پائلٹ مشینری کو سمجھ کر ڈرائیور یا پائلٹ بن سکتا ہے تو ایک طبیب کو بھی ڈاکٹر کی طرح اگردوران تعلیم ٹریننگ دی جائے تو وہ ان ذرائع سے بھرپور فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
جدید دور میں روشنی، سورج کی کرنیں ، تازہ ہوا ، پینے کا صاف پانی ، خالص اور متوازن غذا، رہائش کے لئے آب وہوا کے اعتبار سے عمدہ علاقہ، دنیا بھر میں موسمی تغیرات اور تبدیلی ، سانس لینے کے لئے تعفن سے پاک فضا ، آرام و سکون ، استفراغ و احتباس ، ورزش کے لئے مواقع ، امن و سکون بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔
اگر یہ کہا جائے کہ موجودہ دور میں صحت مند زندگی کے لئے جن امور کی بنیادی اہمیت ہے اور جنہیں صحت کے لئے ضروری قرار دیا جاتا ہے مثلاً ہوا کے بارے جید الجواہر اور پانی کے بارے حدیدی پانی کو ترجیح دی جاتی ہے تو اس بارے میں ابن سیناؒ نے صدیوں قبل کہیں زیادہ گہرائی کے ساتھ نشان دہی کی ہے۔ آج Enviormental Science اور Nutrition کے ذریعہ جو کام جدید سائنس کرنا چاہتی ہے ۔ ابن سیناؒ کا ہمیں شکر گزار ہونا چاہیے کہ انہوں اپنی ’’کلیات‘‘ میں تفصیل سے بحث کے بعد راہنمائی کی ہے۔
خورد بین کی ایجاد نے جراثیمی تھیوری بیکٹیریا اور وائرس کی نشان دہی کی ہے اور معترضین اعتراض کرتے ہیں کہ طب اس کی قائل نہیں، طب نے عفونت ، سڑانڈ ،سمی مادہ، کے الفاظ استعمال کئے ہیں جو بالکل یہی مفہوم رکھتے ہیں۔ ہمیں تو ابن سیناؒ کی خداداد صلاحیتوں کو سلام پیش کرنا چاہیے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ان ایجادات کے بغیر بھی جن اصول و ضوابط کو علاج میں بطور قاعدہ کلیہ طے کردیا آج بھی وہ سچ ہیں۔
جدید طب کو ممنون ہونا چاہیے کہ بچوں کی پیدائش سے لے کر نوعمری تک کے امراض، جوانی کے امراض ، بڑھاپے کے امراض ، خواتین کے امراض ، شادی اور غیر شادی شدہ نوجوانوں کے امراض، ذہنی ، جسمانی اور اخلاقی امراض ، متعدی اور وبائی امراض کے اسباب، علامات اور علاج ، حفظ ما تقدم، قرنطینہ، غذا اور پرہیز تمام امور کے بارے کلیات میں تفصیلی مباحث موجود ہیں جو آج کے حالات پر بھی صادق آتی ہیں۔
میرے اس مقالہ کا مقصد ہر گز کسی فن کی تکذیب ، تردید یا توہین نہیں ہم اس بات کے قائل ہیں۔
آئین نو سے ڈرنا طرز کہن پہ اڑنا
منزل یہی ہے کٹھن قوموں کی زندگی میں
اور بقول اقبال ؒ
صورت شمشیر ہے دست قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب
(بال جبرئیل، مسجد قرطبہ)
ہمیں اپنے اعمال کا حساب اور احتساب کرتے رہنا چاہیے۔
طب کے دائرہ پر روشنی ڈالتے ہوئے ابن سیناؒ کہتے ہیں
معلوم ہونا چاہیے کہ اک مخصوص حالت کی برقراری یا اس حالت میں تبدیلی کسی سبب کے بغیر ممکن نہیں لہٰذا طبیب کو لازم ہے کہ وہ ان سب اسباب کو جانے جو صحت کو قائم رکھتے ہیں یا جو مرض پیدا کرتے ہیں۔
اہم سوال ہے کہ جس شخص نے کلیات کے اصول وضع کئے وہ دعویٰ کرتا ہے کہ انسان اگر کلیات کے اصولوں پر عمل کرے تو طبعی زندگی ایک سو بیس سال Enjoy کرسکتا ہے، وہ شخص جس علاج کی مہارت تامہ رکھتا تھا ، جس کے علاج کا موجد تھا، خود اسی مرض سے 57سال کی عمر میں دارفانی سے کوچ کرگیا۔ معترضین اعتراض کرتے ہیں کہ شیخ کا علم طبیعات اس کے جسم کو نہ بچا سکا اور اس کا علم مابعد طبیعات اس کی روح کو نہ بچا سکا۔
درحقیقت سینا ہو ، رازی یا غزالی اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
وَلَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْْئٍ مِّنْ عِلْمِہٖٓ اِلَّا بِمَا شَآئَ.
ان تمام فلسفیوں کا علم نبی رحمتؐ کے فرمان کے مطابق سمندر سے چونچ بھرنے والے پرندے کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ ہستی مالک الملک ہے ، اس کا اصول ہے۔ کل نفس ذائقۃ الموت۔ اگر ہم آج بھی اپنے فن اور اکابرین کی راہ پر عمل تو طب ان شاء اللہ زندہ رہے گی۔
کچھ بات ہے کہ ہستی مٹتی نہیں ہماری
برسوں رہا ہے دشمن گو ’’یہ جہاں‘‘ ہمارا
٭…٭…٭