
کائنات کی ہر چیز قدرت کا ایک کرشمہ ہے ۔اللہ تعالیٰ نے ہر چیز اس قدر کامل اور خوبصورت بنائی ہے کہ اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی ۔ہم بیسویں صدی میں رہ رہے ہیں اور انسان اتنی ترقی کر چکا ہے کہ دوسرے سیاروں تک پہنچ گیا ہے مگر ابھی تک وہ اپنی دنیا کا کچھ فیصد ہی دریافت کر پایا ہے۔ کائنات کے اسرار نہیں جان پایا۔آج ہم اللہ تعالیٰ کی کچھ تخلیقات کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں ۔قرآن پاک میں اللہ تعالی نے بہت سی چیزوں کا ذکر کیا ہے جیسے مکھی، مچھر، مچھلی، شہد کی مکھی، اونٹ، چیونٹی اور انسان وغیرہ
تخلیق انسانی اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا کرشمہ ہے ۔اگر ہم اپنی پیدائش کے عمل کو دیکھیں تو حیرت ہوتی ہے۔کیسے ایک بوند پانی سے ایک نہایت خوبصورت انسان پیدا ہوتا ہے۔آئیے قرآن مجید کی روشنی میں انسانی تخلیق کا جائزہ لیتے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ سورۂ مریم میں فرماتے ہیں:
’’کیا انسان کو یاد نہیں کہ ہم پہلے ا س کو پیدا کر چکے جبکہ وہ کچھ بھی نہ تھا ۔‘‘
انسان عورت اور مرد کے جسموں میں موجود مادے کے یکجا ہونے سے زندگی پاتا ہے۔دونوں الگ مگر مکمل طور پر ہم آہنگ ہیں ۔یہ بات تو یقینی ہے کہ مرد کا نطفہ اس کی مرضی اور اختیار سے پیدا نہیں ہوتا ۔نہ ہی عورت کے جسم میں بیضہ اس کی مرضی سے داخل ہوتا ہے بلکہ انہیں تو اس سارے عمل کی خبر بھی نہیں ہوتی ۔
’’ہم نے تمہیں پیدا کیا ہے پھر تم تصدیق کیوں نہیں کرتے؟ کبھی تم نے غور کیا یہ نطفہ جو تم ڈالتے ہو اس سے بچہ تم بناتے ہو یا اس کے بنانے والے ہم ہیں ۔‘‘(سورہ الواقعہ آیت 57-59)
نطفہ مرد کے جسم سے باہر پیدا ہوتا ہے اور یہ صرف اس وقت ممکن ہوتا ہے جب خصیتین کوجسم کے عمومی درجہ حرارت سے دو درجے سرد ماحول میسر ہو ۔اس درجہ حرارت کو قائم رکھنے کے لیے خصیتین(Testicles)کے اوپر ایک خاص قسم کی کھال ہوتی ہے۔یہ سرد موسم میں سکڑتی ہے اور گرمی میں پھیلتی ہے۔یہ کسی انسان کے بس کی بات نہیں ہے ۔کرم ہائے حیات خصیتین (Testicles )میں 1000 فی منٹ کی شرح سے پیدا ہوتا ہے ۔اور عورت کے بیضہ دان میں پہنچنے کے لیے اسے خاص شکل دی جاتی ہے ۔ا س کا ایک سر، گردن اور دم ہوتی ہے۔دم، رحم مادہ میں داخل ہونے کے لئے مچھلی کی طرح مدد کرتی ہے۔اس کے سر میں بچے کے جینی کوڈ کا ایک حصہ ہوتا ہے ۔اسے ایک خاص حفاظتی ڈھال سے ڈھانپ دیا جاتا ہے ۔رحم میں داخل ہونے والے راستے پر تیزابی ماحول ہوتا ہے ۔ جبکہ مادہ حیات کا ردعمل اساسی(کھاری) ہوتا ہے۔ اس کی ڈھال اور کیمیاوی اسٹریکچرکی وجہ سے اس کی حفاظت ہوتی ہے۔
سورہ الدھر آیت 2 میں ہے:
’’ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا تاکہ اس کا امتحان لیں۔‘‘
مردانہ مادہ حیات کے اندر سیال مادوں میں شکر کی موجودگی کرم حیات کوتوانائی فراہم کرتی ہے۔ جبکہ بیضہ دانی میں موجود بالغ بیضہ ہائے نسواں، جب رحم کی فیلوپین نالیوں میں آمد ہوتی ہے اور یہیں پر بیضہ انثیٰ اور کرم حیات کے ملاپ کے بعد رحم کے ساتھ دو بازوئوں کی شکل میں موجود ہیں، ان نالیوں کے اندرCiliumکے طرز پرحرکت کرتا ہے۔ تویہ بیضہ نمک کے نصف ذرے کے برابر ہوتا ہے۔
قرآن پاک اس عمل کو ایسے بیان کرتا ہے :
’’ پھر اس کی نسل ایک ایسے مادہ سے چلائی جو حقیر پانی کی طرح کا ہے۔
( السجدہ : 8)
مرد کے ڈی .این .اے اور عورت کے ڈی .این .اے جب نسوانی بیضے میں یکجا ہو جاتے ہیں تویہ مرکب پہلا انسانی خلیہ ہوتا ہے جو رحم مادر میں بنتاہے اسے جفتہ(Zygote)کہتے ہیں ۔یہ جفتہ رحم مادر سے ایک جڑ کی طرح چمٹ جاتا ہے اور ماں کے جسم سے بذریعہ خون ایسے مادے حاصل کرتا ہے جو اس کی نشوونماکے لیے ضروری ہیں ۔ دوران نمو کی اسی حالت کو اللہ تعالیٰ نے سورہ العلق میں جونک کی مانند رحم سے لٹکے ہو خون چوستے ہوئے ایک لوتھڑے کا نام دیا ہے ۔عربی زبان میں علق کے معنی ایک ایسی چیز ہے جو کسی جگہ یوں چمٹ جائے کہ جیسے جونک۔اب رحم مادر ایک سیال مادے سے بھر جاتا ہے جو بچے کو محفوظ رکھتاہے۔
سورہ المرسلت میں اسے ایسے بیان کیا گیا ہے :
’’کیا ہم نے تمہیںایک حقیر پانی سے پیدا نہیں کیا اور ایک مقرر مدت تک اسے ایک محفوظ جگہ ٹھہرائے رکھا۔‘‘(المرسلٰت22)
جنین جو جیلی کے مانند تھا اب ایک شکل اختیار کر لیتا ہے۔ ہڈیاں بننے لگتی ہیں ۔آنکھ بننے لگتی ہے ۔جب یہ بچہ پیدا ہوتا ہے تو آغاز کے مقابلے میں 100 ملین بڑا اور 6 بلین بھاری ہوتا ہے ۔
اب ذرا مختصر جائزہ لیتے ہیں ہمارے اندر لگی مشینری کا۔(مختصر اس لیے کہ اگرہم تفصیلاً جائزہ لینے لگے تو کئی کتابیں بھی کم پڑ جائیں گئیں)انسانی جسم تقریباً 60-70 کلو گوشت اور ہڈیوں کا مجموعہ ہے اور کھال اور خون اس کی حفاظت اور خوراک ہیں ۔
بالوں کی مثال لے لیں ۔سر اور پلکوں کے بال یکساں رفتار سے نہیں بڑھتے -اگر ایسا ہوتا تو آنکھیں زخمی ہو جاتیں ۔پلکوں کے بال اوپر کی طرف مڑے ہوئے ہوتے ہیں ۔جو آنکھوں کو خوبصورت بناتے ہیں اگر یہ بہت لمبی ہو جائیں تو انہیں ایک خاص تیل ڈھانپ لیتا ہے جو انہیں خشک اور سیدھا نہیں ہونے دیتا۔
انسانی جسم کا ہر حصہ ہر مقام نہایت بہترین طریقے سے اپنی جگہ پر بنایا گیا ہے ۔مثلاً نوزائیدہ بچے کی کھوپڑی کی ہڈیاں بہت نرم ہوتی ہیں۔یہ لچک اسے رحم مادر سے باہر آتے ہوئے اس کے سر اور ماں کے جسم کو تولیدی عمل نقصان سے محفوظ رکھتی ہے ۔اگر یہ ہڈیاں سخت ہوتیں تو پیدائش کے وقت ٹوٹ بھی سکتی ہیں۔ہمارا لعاب کیمیائی عناصر کی مدد سے نشاستے کو شکر میں تبدیل کر دیتا ہے ۔خوراک گیلی ہو کر آسانی سے چبانے کے قابل ہو جاتی ہے۔اور آسانی سے قناۃ غذائی (Alimentary canal) میں چلی جاتی ہے ۔اگر منہ میں لعاب پیدا نہ ہو تو کیا ہم کوئی چیز نگل سکیں گے؟ معدے کے اندر موجود نمک کا تیزاب جو کہ خوراک کو ہضم کرتا ہے اس قدرر تیز ہوتا ہے کہ معدے کی دیواروں کو بھی کھا سکتا ہے۔مگر اللہ تعالیٰ نے اس کا حل یہ دیا ہے کہ ایک لعاب معدے کی دیواروں پر چسپاں ہوتا رہتا ہے۔اگر ایسا استر نہ ہوتا رہے تو معدہ شدید درد کے ساتھ تباہ ہو جائے گا ۔
جب خوراک ہضم ہو جاتی ہے تو چھوٹی آنت کا استر اسے جذب کر کے اسے خون میں حل کر دیتا ہے ۔اس آنت پر سلوٹوں کا غلاف چڑھا ہوتا ہے ہر سلوٹ پر ایک چھوٹی بالوں کی طرح باریک باریک سلوٹ نما لائینگ ہوتی ہے۔جنہیں خملے (Villus) کہتے ہیں ۔یہ پمپ کی طرح کام کرتے ہیں۔ ایک مربع ملی میڑ میں اس قسم کے 200 ملین پمپ نصب ہوتے ہیں ۔سوچئے !اگر ہم ایسے 200 ملین پمپ کہیں نصب کریں تو کتنی جگہ گھیریں گے۔
ہماری ناک کے بال اور لعاب جو کہ نتھنوں کی دیواروں کے ساتھ رہتا ہے ہوا کو چھان کر خاک کے ذرات الگ کر دیتے ہیں ۔اور ہوا گرم کر دی جاتی ہے تاکہ سرد ہوا ہماری صحت پر منفی اثر نہ ڈالے ۔ناک کی ہڈیوں کی خاص ساخت کی وجہ سے ہوا ناک کے اندر چکر لگا کر گرم ہو جاتی ہے اور یہ سب کچھ چند ملی سیکنڈز میں اور مستقل ہو رہا ہوتا ہے۔جب کسی کو سانس کا مسئلہ ہو تو آکسیجن سلنڈر کے ساتھ ساتھ پورا ایک سسٹم لے کر چلنا پڑتاہے۔
انسانی ڈھانچہ صناعی کی بہترین مثال ہے ۔یہ جسم کے نازک اعضاء دل، پھیپھڑے اور دماغ وغیرہ کی حفاظت کرتا ہے ۔اسی کی وجہ سے انسان حرکت کرتا ہے ۔ہڈی کے ٹشو نامیاتی نہیں ہیں بلکہ جسم کے لیے معدنیاتی ذخیرہ ہیں ۔اور یہ خون کے سرخ خلیے بھی بناتی ہیں ۔ران کی ہڈی جب بالکل سیدھی ہو تو 1 ٹن وزن اٹھا سکتی ہے ۔ہڈیاں جسم کے مختلف حصوں میں لچک دار ہوتی ہیں اور یہ لچک وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل بھی ہوتی رہتی ہے ۔جیسے حمل کے آخری دنوں میں عورت کی کولہے کی ہڈیاں پھیل جاتی ہیں ۔
اللہ تعالی سورہ البقرہ میں فرماتے ہیں:
’’ پھر دیکھو ہڈیوں کے اس پنجر کو ہم کس طرح اٹھا کر گوشت پوست اس پر چڑھاتے ہیں ۔‘‘(البقرہ:259)
انسان کے جسم کا قدرتی نظام اسے زندہ رکھنے کے لیے ربط باہم سے کام کرتا ہے۔اس مقصد کے لیے جسم کے اندر خفیہ اطلاعات کا ایک نہایت ترقی یافتہ جال بچھا ہوا ہے ۔ہر ایک سیکنڈ میں اربوںمعلومات کی جانچ پڑتال ہوتی ہے۔ہلکی سی مسکراہٹ کے لئے سترہ پٹھوں کو بیک وقت مل کر کام کرنا پڑتا ہے ۔اگر ایک بھی پٹھہ کام نہ کرے تو تاثرات بدل جاتے ہیں ۔پٹھوں اور جوڑوں میںکئی بلین خورد بینی درآور عصبیے Receptors ہوتے ہیں جو جسم کو اطلاعات فراہم کرتے ہیں ۔جیسے کب ہاتھ اٹھانا ہے۔اور کس عضو کو اگلا قدم کیا لینا ہے ۔ہمیں بولنے کے لئے بھی کوشش نہیں کرنی پڑتی۔انسان یہ منصوبہ بندی نہیں کرتا کہ صوتی ڈوریاں (Vocal Cords) کتنی دور ہوں۔ ایک منٹ کے اندر کتنے پٹھوں کو سکڑنا یا پھیلنا ہے۔
انسان کی خوبصورتی یا توانائی اس کا اپنا کام نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کا انعام ہے۔جگر انسان کے پیٹ کے اوپر والے جوف کے دائیں طرف ہوتا ہے ۔یہ دوران خون کے نظام میں چھلنی (Filter)کا کام بھی کرتا ہے تاکہ ماکولات و مشروبات کے غذائی فضلات کو چھانٹ سکے اور الگ کردے باقی حصہ کو خون میں شامل ہونے کے قابل بنادے۔ گردے پانی میں حل شدہ چیزوں اور فالتو انسانی مواد کو فلٹر کرتے ہیں ۔
جگر لحمیات اور خامرے بھی بناتا ہے جو نسوں کی حفاظت بھی کرتے ہیں ۔Kupffer Cells جگر میں سے گزرنے والے خون سے جرثومے صاف کرتے ہیں ۔جگر گلوکوز پیدا کرتا ہے ۔یہ سکڑتا اور پھیلتا بھی ہے اور پورے جسم کا 10% خون ذخیرہ کر سکتا ہے۔یہ نئے سرخ خلیے بھی پیدا کرتا ہے ۔لوہا بھی ذخیرہ کرتا ہے ۔اس میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ اگر کوئی حصہ خراب ہو جائے تو خود ہی ٹھیک کر لے۔اسی لیے اگر جگر کا 2/3 حصہ کاٹ بھی دیا جائے تو بھی یہ کام کرتا رہتا ہے ۔جلد یا کھال نہایت پیچیدہ عضو ہے ۔جس کی کئی تہیں ہوتی ہیں جن میں درآور عصبیے، دوران خون کے راستے، ہوا کے اندر آنے جانے کا نظام، حرارت اور نمی کو باقاعدہ رکھنے کا نظام ہوتا ہے ۔اس کے ٹشوز میں بیک وقت ٹھنڈا اور گرم رکھنے کی صلاحیت ہوتی ہے ( مفت کا قدرتی اے.سی ہے ) ۔اس کے بغیر انسانی زندگی خطرے میں پڑ جاتی ہے ۔اس کے کسی حصے پر کٹ لگ جائے اور پانی کافی مقدار میں ضائع ہو جائے تو موت بھی واقع ہو سکتی ہے ۔
کھال کے نیچے مختلف عضویاتی ساخت کی تہہ روغنیات سے بنی ہوتی ہے جو گرمی سے بچاتی ہے ۔اس تہہ کے اوپر لحمیات کی یہی کھال میں لچک پیدا کرتی ہے ۔یہ جسم میں موجود پانی کے توازن کو خراب ہونے سے بچاتی ہے۔اگر خارجی جلد کے خلیے اپنی صفات کھو دیں تو جلد دبیز اور سخت ہو جائے گی ۔
رگیں صاف خون ٹشوز میں منتقل کر دیتی ہیں اور شریانیں آکسیجن کو ٹشوز میں پہنچاتی ہیں جو تمام خلیوں تک پہنچتی ہے ۔اس کے ہر خانے کے منہ پر والو خون کے مخالف سمت میں بہا ئوکو روکتے ہیں۔ یہ والو Atriaاور دل کے جوفوں کے درمیان ہوتے ہیں جو ریشے دار ٹشو سے بنتے ہیں جنہیں بہت پتلے پٹھوں نے تھاما ہوتا ہے اگر ان میں سے ایک بھی کام کرنا چھوڑ دے تو فالتو خون دل کے خانوں کی طرف بہنے لگے گا جس سے دل کی بیماریاں پیدا ہو سکتی ہیں ۔خون کی مقدار جسم کی ضرورت کے مطابق بدلتی رہتی ہے ۔ورزش کے دوران دل180 بار فی منٹ دھڑکتا ہے کیونکہ زیادہ توانائی کی ضرور ت ہوتی ہے ۔
ہاتھ عموماً آنکھ کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے ۔اشارات آنکھ کے ذریعے دماغ میں منتقل کرتے ہیں اور ہاتھ دماغ کے حکم پر عمل کرتے ہیں۔مزید برآں دونوں ہاتھ مکمل ہم آہنگی سے کام کرتے ہیں ۔
دفاعی نظام میں انسانی جسم کی ایک بہترین فوج ہے۔جو ہر روز موزوں ہتھیاروں سے اپنے حریف کو تباہ کرتی ہے ۔انسانی جسم قلعہ کی مانند ہے جس کی دیوار جلد ہے۔اس کے خلیوں میں قراتن ہے جو بالوں، سینگوں اور ناخنوں میں حل نہیں ہوتا ۔یہ مادہ جراثیم اور پھپھوندی کے لیے رکاوٹ بن جاتا ہے ۔اگر قراتن والی جلد کو رگڑا جائے تو نیچے سے نئی جلد نکل آتی ہے اور مردہ جلد کے ساتھ جراثیم بھی نکل جاتے ہیں ۔ناک ہوا کے ذریعے وائرس کو جسم میں جانے نہیں دیتی ۔اور اگر کچھ جراثیم داخل ہو ہی جائیں تو پھیپھڑے اور معدے کے خلیے اور خامرے اور چھوٹی آنت ان کو خارج کر دیتی ہیں ۔کچھ خوردبینی جرثومے آنکھ ، جلد کی جھریوں، ناک، تنفس والی بالائی نالیوں اور تولیدی اعضا ء پر مسکن بنا لیتے ہیں اور جب کوئی بیرونی جرثومہ حملہ کرتاہے تو یہ جرثومے اس سے لڑ کر جسم کی حفاظت کرتے ہیں ۔اگر یہ جراثیم کسی طرح جسم میں داخل ہو ہی جائیں تو Macrophages اسے گھیر کر مار دیتے ہیں ۔اگر دشمن کی تعداد زیادہ ہو تواکال خلیے آتشی زہر Pyrogen خارج کرتے جو طویل سفر کے بعد دماغ تک پہنچ کر بیماری میں اضافہ کرنے والے مرکز کو متحرک کر دیتا ہے جس سے دماغ جسم میں خطرے کی گھنٹیاں بجا دیتا ہے اور بخار تیز ہو جاتا ہے اور مریض آرام پر مجبور ہو جاتا ہے ۔
اب لمفی غدود ٹی اور بی خلیے Cytotoxic کام کرتے ہیں ۔اور ان جراثیم کو تباہ کر دیتے ہیں ۔اور بہت سے ٹی بی خلیے اپنی زندگی پوری کر کے مر جاتے ہیں ۔سوال یہ ہے کہ کیا یہ نظام اور منصوبہ بندی خود بخود ہو گئی یا اس کا کوئی خالق بھی ہے؟
کوئی انسان خود سے تو یہ سب کر نہیں سکتا اور کوئی اور مخلوق اتنی عقلمند یا فعال نہیں ہو سکتی۔اس قدر جامع نظام ہمیں یقینی موت سے تحفظ دیتا ہے۔تو صرف اللہ تعالی ہی اتنا مامون و محفوظ نظام تخلیق کر سکتا ہے۔کیا واقعی یہ قدرت کا ایک کرشمہ نہیں ہے؟ ؟؟

حمیرا علیم
٭…٭…٭