حکیم حافظ محمد یونس ؒ: ایک جہاندیدہ طبی قائد

حکیم حافظ محمد یونسؒ کو ہم سے بچھڑے ہوئے ایک سال بیت گیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ابھی کل کی بات ہے ۔ آپؒ کی وفات پاکستان طبی کانفرنس کے لئے ایک بڑا خلا ء تھا۔ جماعت کے پلیٹ فارم سے کوئی سرگرمی ، کسی پروگرام کا انعقاد ، یا کوئی اہم کام ایسا نہ تھا جس میں حافظ صاحب مرحوم کااہم کردار نہ ہو۔جماعت کسی بھی تنظیمی حلقہ ضلع، ڈویژن یا صوبہ کی سطح پر منظم کرنے کا کام ہو یا پھر قومی طبی کونسل کے تحت نیشنل ورکشاپس کا انعقاد ہر محاذ پر حافظ صاحب مرحوم کا کردار نمایاں ہر ہر صوبہ میں نظر آتا ہے۔

آپؒ کے جماعتی کام تو دادِ تحسین کے لائق ہیں ہی آپؒ کے ذاتی کام بھی قابل صد ستائش ہیں۔ محترم حکیم حافظ محمد یونس ؒ کے کچھ دوستوں نے آپ کی فیاضی سے بھی آگاہی دی کہ انہوں نے جب کسی بھی مشکل میں آپؒ سے قرض حسنہ کی درخواست کی تو انہوں نے کبھی بھی مایوس نہیں لوٹایا۔ ان کی ضرورت کے مطابق نہ صرف ان کو قرض حسنہ دیا بلکہ اس کی واپسی کے لئے بھی کسی کو مجبور نہ کیا۔

راقم الحروف کوحکیم حافظ محمد یونسؒ کے ساتھ 2007ء سے 2021ء تک جماعت کی تنظیم سازی ، کسی سیمینار کے انعقاد کے لئے رابطوں ، رکنیت سازی کی مہم، انتخابی مہم اور رابطہ اطباء مہم کے سلسلہ میں طویل رفاقت کا اعزاز حاصل رہا ہے۔ ان ملاقاتوں میں کبھی بھی کسی سے بہ اہتمام برتکلف دعوت کھلانے کا مطالبہ ہنسی مذاق میں بھی نہیں کیا۔ کسی طبیب کی طرف سے جب بھی دعوت طعام کا اصرار ہوتا تو فرماتے کہ آپ کے پاس آکر بتائیں گے کہ ہم نے کیا کھانا ہے ، پہلے سے انتظامات کرنے کو سختی سے منع کردیتے۔ان کے پاس جا کر چائے پلانے کا کہتے ہمیشہ کھانا کھانے کا آئندہ ملاقات تک کے وعدہ پر ٹال دیتے۔

جب بھی کسی طبیب سے ملاقات کرتے جن میں اکثریت ان کے شاگردوں یا جونیئرز کی ہوتی تو اختصار کے ساتھ محض ملاقات کا مدعا بیان کرتے اور فرماتے کہ سیمینار کے انعقاد یا ووٹ کی درخواست کے لئے حاضر ہوئے ہیں وغیرہ آپ اللہ تعالیٰ کے نیک بندے ہیں اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں کہ ہمیں اس کام میں کامیابی عطا فرمائیں۔

بسااوقات انتخابی مہم پر دوسرے شہروں کا بھی سفر کرنا پڑا۔دوران سفر وہ مختلف موضوعات پر گفتگو فرماتے ۔ ان کی گفتگو سیر حاصل ہوتی۔ باوجودیہ کہ وہ گاڑی چلارہے ہوتے ، ایسی ہی ایک گفتگو صفحۂ قرطاس کی زینت بنائے دے رہا ہوں۔ ایک سفر کے دوران راقم الحروف نے ان سے سوال کیا کہ سیاست دان کیوں اس قدر کمزور ہوتے ہیں کہ وہ دیگر حکومتی اداروں مثلاً بیورو کریسی اور اسٹیبلشمنٹ وغیرہ پر اپنی بالا دستی قائم نہیں رکھ پاتے۔ انہوں نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایاکہ ضلعی حکومت کی مثال لے لیں۔ ایک ضلعی ناظم اجلاس کی صدارت کررہا ہوتا ہے ۔ ڈی سی جو کہ عملاً اس کے ماتحت ہے ، لیٹ آتا ہے ۔ ضلعی ناظم اپنے عملہ اور ضلعی حکومت کے ارکان کے ہمراہ اس کے جاہ و جلال سے مرعوب ہو کر خود کھڑا ہو کر اس کا استقبال کرتا ہے چہ جائیکہ وہ ا س سے لیٹ آنے سے متعلق باز پرس کرے ۔ اس طرح کے واقعات کے پس پردہ وہ ذہنی غلامی ہے جو کہ انگریز کے چلے جانے کے باوجود بھی انگریز کے دیئے گئے نظام کا حصہ ہیں۔ وہ اپنے آپ کو عوام اور عوام کے نمائندوں سے’’برتر مخلوق ‘‘سمجھتے ہیں اور سیاست دان اپنے آپ کو ’’کم تر‘‘ سمجھتے ہیں اگر عوامی نمائندگان با صلاحیت ، تجربہ کار اور باکردار ہوں تو وہ عوام کی طاقت کو حکمت اور حسن تدبیر سے منوا بھی سکتے ہیں۔

بلا شبہ بر صغیر پاک و ہند کا یہ عام مسئلہ ہے۔ہم قانونی طو ر پر 1947ء میں ’’آزاد‘‘ ہو چکے ہیں مگر ذہنی طو پر شاید اب بھی ’’ غلام‘‘ ہیں۔ انگریز نے 1935ء کے ایکٹ کے تحت بیوروکریسی کو لا محدود اختیارات دیئے تاکہ اپنے اقتدار کو دوام بخش سکیں ۔ اب بھی ہمارے ہاں تھوڑی بہت ترمیم کے ساتھ دور انگریز کا سابقہ انداز حکمرانی ہی نافذ العمل ہے، جس میں ایک ادنیٰ سا سرکاری اہل کار بھی اپنے آپ کو ’’وائسرائے‘‘ ہی سمجھتا تھا۔ کسی آفیسر کی دانستہ غلطی کی اس کو سزا نہیں مل پاتی۔ اس کی انکوائری کرنے والے اسے ہر طور بچالیں گے۔ جب کہ سیاست دان خود بھی ایک دوسرے کو بلاو جہ محض انتقاماً ہی پھنسا دیں گے ۔آج تک کوئی بھی سرکاری اہل کار خواہ کتنے بڑے جرم کا ہی مرتکب کیوں نہ ہوا ہو، بالآخر اس جرم سے نہ صرف بری بلکہ اپنے عہدے پر تمام تر ترقیوں اور بقایا جات کے ساتھ بحال ہو جاتا ہے۔ حالانکہ قائداعظم محمد جناح ؒ نے سرکاری ملازمین کے بارے میں فرمایا تھا کہ آپ قوم کے ’’خادم‘‘ ہیں، اپنے آپ کو قوم کا خادم سمجھیں۔

اللہ تعالیٰ حکیم حافظ محمد یونسؒ کے درجات کو بلند فرمائیں ، ان کے وارثوں کو ان کے صحیح معنوں میں جانشین بننے کی توفیق مزید سے نوازیں۔ آمین۔

حکیم محمد انور

٭…٭…٭

حکیم حافظ محمد یونس ؒ: ایک جہاندیدہ طبی قائد

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *