
عرب نسل کے اس مشہور سائنس داں کا پورا نام ابو یوسف یعقوب بن اسحاق تھا ، چونکہ یہ نسب شاہان کندہ سے ملا تھا، اس لئے مؤرخین اس کو یعقوب کندی لکھتے ہیں۔ اس کے والد کا نام اسحاق بن صباح تھا۔ وہ کوفے کے حاکم تھے۔ ہارون الرشید نے انہیں بصرہ بھیج دیا، جہاں وہ عرصے تک سرکاری خدمت پر مامور رہے۔
الکندی کی ولادت800ء کے قریب بصرے ہی میں ہوئی اور ابتدائی تعلیم و تربیت بھی اسی تاریخی شہر میں ہوئی ، لیکن اعلیٰ تعلیم کے لئے بغداد جانا پڑا۔ علم وفن کی تحصیل کے بعد وہ اسی شہر کا ہو کر رہ گیا اور پوری زندگی اس نے بغداد میں ہی گزاری۔
الکندی دربار سے منسلک ضرور رہا ،لیکن جاہ و منصب سے زیادہ اسے علم سے دلچسپی تھی، اس کی سائنسی بصیرت اور معلومات کی وسعت کی وجہ سے اس کے بیش تر معاصر اس سے حسد کرنے لگے اور انھوں نے اس کے خلاف فرما نروائے وقت متوکل کے کان بھرنے شروع کردیئے ۔چنانچہ اس کی کتابیں ضبط کرلی گئیں اور دربار سے اس کا تعلق ختم کردیا گیا ۔ الکندی کو دربار سے اپنی علیحدگی کا ملال تو نہیں تھا ، لیکن کتابوں کے ضبط ہو جانے کا اسے بہت غم تھا۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ کتابیں اس کو واپس مل گئیں تھیں، یقینا کسی نے سفارش کی ہوگی۔
کندی نے دربار سے قطع تعلق کے بعد یکسوئی اور انہماک کے ساتھ تصنیف و تالیف کا سلسلہ شروع کیا اور پھر کبھی دربار کا رخ نہیں کیا۔
کندی کو حکیم عرب کہا جاتا ہے،لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ صرف فلسفی یا سائنس داں نہیں تھا ، بلکہ بقول جارج سارٹن اس کی شخصیت نہایت جامع اور طبیعت ہمہ گیر تھی ۔ ریاضی ، طبیعیات، ہئیت ، موسیقی، طب اور جغرافیہ جیسے مضامین میں اسے خصوصی مہارت حاصل تھی اور ان موضوعات پر اس نے نہایت بلند پایہ کتابیں لکھی ہیں۔ اسے عربی ، یونانی اور سریانی کے علاوہ متعدد زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ اس نے دربار میں یونانی کتابوں کو عربی میںمنتقل کرنے کی خدمت انجام دے کر علم و حکمت کی تاریخ میں اہم مقام حاصل کیا ۔ اس کی زبان دانی اور مہارت کا یہ عالم تھا کہ وہ دوسروں کے تراجم کی اصلاح کیا کرتا تھا ۔ اس کی نگرانی میں اس کے شاگردوں کی ایک بڑی جماعت ترجمے کی خدمت انجام دیتی تھی ۔ وہ ہر ایک کے ترجمے کو بغور دیکھتا تھا اور معمولی غلطی بھی اگر نظر آتی تو اسے درست کردیا کرتا تھا۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ دربار میں صرف ترجمے اور اس کی نگرانی کی خدمت پر وہ مامور تھا، حالانکہ وہ منجم ، طبیب اور منتظم مالیات بھی تھا۔
ریاضی اور موسیقی کے علاوہ طب میں بھی اس کا مقام بہت بلند ہے۔ اس نے مرکب دوائوں کے اثر کو موسیقی کی طرح ہندسی تناسب پر مبنی قرار دیا ہے۔ اس کا ایک بہت بڑا کارنامہ یہ بھی ہے کہ اس نے تمام مفرد دوائوں کی صحیح خوراک کا تعین کیا ۔ اس سے قبل خوراک کے بارے میں اطباء کے باہمی اختلافات کی وجہ سے نسخوں کی ترتیب میں بڑی دشواری پیش آتی تھی ۔ خوراک کے تعین کا کام اس نے تمام فنی اصول و ضوابط کو سامنے رکھ کر کیا اور اس پر مستقل کتاب بھی پیش کی ، جس سے اطباء کو بہت فائدہ پہنچا اور خوراک کے سلسلے میں ان کا تذبذب دور ہو ا ۔ الکندی کی اس کتاب کا ترجمہ پہلے لاطینی میں ہوا۔ جب طباعت کی سہولت میسر آگئی تو 1531ء میںجرمنی کے شہر ’’سٹراس برگ‘‘ میں یہ کتاب چھپ کر منظر عام پر آئی۔
اس نے 70سال سے زیادہ عمر پائی اور جوانی سے لے کر بڑھاپے تک نو خلفائے عباسیہ کا عہد دیکھا ۔ اس کا انتقال معتمد کے عہد خلافت میں 873ء میں ہوا۔

حکیم محمد سعید شہید
٭…٭…٭