
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کورونا کے پھیلا ئوکو روکنے کی شعوری کوششوں میں حکومت نے فرنٹ فٹ پر اقدامات کرکے ایک اجتماعی ذہن کی تیاری کو یقینی بنایا ہے اور اس افراتفری ، تضاد بیانی، ابہام اور بے سمتی میں ایک معقول اور متوازن راستہ کا انتخاب کیا ہے، ملک میں لاک ڈان کی بحث سے قطع نظر سیاسی قیادتوں میں کوروناوائرس سے نمٹنے کے لیے ایک پیج پر ہونے کاادراک اس وقت قومی ضرورت بن چکا ہے اور وقت کاتقاضہ ہے کہ سیاسی سماجی، فکری، روحانی اور عملی بنیادوں پر کورونا وائرس سے مقابلہ کا نفسیاتی میدان کھلا رکھا جائے، اس وقت جو مثبت اور قابل قدر احتیاطی تدابیر اختیار کی جارہی ہیں ان کی پذیرائی عوام کی طرف سے بھی کی جارہی ہے، اور قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ملک بھر کی” ہیلتھ فورس ”نے شدید مسائل اور ناکافی وسائل کے باوجود دکھی انسانیت کی بھرپور مدد کرنے کابیڑا اٹھایا ہے۔یہ ٹمپو اور ردھم یوں ہی شاندار طریقے سے جاری رہنا چاہیے اورساتھ ہی کورونا کے علاج کے جتنے بھی دستیاب نئے امکانات اور وسائل میسر آسکتے ہیں ان سے استفادہ میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں ہونی چاہیے جب کہ قومی جذبہ اور مثبت سوچ کے ساتھ کورونا سے لڑنے کے لئے ممکنہ وسائل کے حصول کا ہدف حاصل کرکے قومی ٹارگٹ پورا کرنا چاہیے۔
اس ضمن میں مناسب ہوگا کہ چند اہم تجاویز کا کھلے دل کے ساتھ جائزہ لیا جائے جو دنیائے طب اور دیسی طریقہ ہائے علاج سے وابستہ مختلف حلقوں سے سامنے آئی ہیں۔ ان ماہر اطبا ء کا استدلال ہے اس طریقہ علاج کی سند صدیوں سے ملتی چلی آرہی ہے، ملک کے مستند طبی ادارے زمانے سے دکھی انسانیات کا علاج کرتے آئے ہیں جن میں ہمدرد، قرشی، طیبی، اشرف،حکیم اجمل اور دیگر معتبر طبی ادارے ہیں جن سے کورونا وائرس کے علاج کے سلسلے میں رجوع کرنا طب مشرقی کا استحقاق بھی ہے اور اس طرز فکر کی مرعوبیت کا جواز بھی جس کی وجہ سے کورونا کے سدباب کے لیے برصغیر کے قدیم دیسی طریقہ ہائے علاج کی ناقدری کا رجحان عام ہے اور ”ٹوٹکوں ”سے گریز کا مشورہ بھی اسی فکر کا کمال ہے جسے طب مشرق کے خزانے سے استفادہ میں حوصلہ شکنی کا سامنا ہے،اس تاثر کی نفی ناگزیر ہے کہ کورونا کا علاج صرف میڈیکل سائنس کا تنہا استحقاق ہے یا عالمی ادارہ صحت اور دیگر بالادست طاقتوںکے مخصوص ایجنڈے پرعملدرآمد کا کوئی راز ہے، لہٰذا اس انداز نظر سے گریز صائب راستہ ہے، ایسی آوازیں بھی طبی دنیا سے اٹھنے لگی ہیں کہ آیورویدک، ہومیوپیتھک ،طب مشرقی اور روحانی علاج سے استفادے کا دروازہ بند نہ ہو ۔ دنیائے اسلام کی تاریخ ابن سینا ،حکیم لقمان اور لاتعداد طبیبوں اور حکیموں سے بھری پڑی ہے، حکمت کا ورثہ دکھی انسانیت سے جڑا ہوا ہے،ایسے طبیب حاذق گزرے ہیں اور اب بھی ہوںگے جو مریض کی صرف نبض دیکھ کر اس کے مرض کی تشخیص کرتے ہیں۔جدید میڈیکل سائنس کی ایجادات کی ایک دنیا معترف ہے۔حیرانی کی بات یہ ہے کہ ہماری حکومت نے ابھی تک برصغیر کی روایتی طب کے ماہرین سے مشورہ تک کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی ہے۔ ہومیو پیتھی کو قانونی تحفظ حاصل ہے اگر یہ قانونی طریقہ علاج ہے تو پھر پاکستان میں موجود ہومیو پیتھی کے ماہرین سے بھی مشورہ کیوں نہیں کیا جا رہامگر حقیقت یہ ہے کہ کوروناکے ایک معمولی جرثومہ نے ہلاکت خیز وائرس کی شہرت پاکر اسے مسیحا نفس ڈاکٹروں کے لیے سوالیہ نشان بنادیا ہے، دنیا تسلیم کرچکی ہے کہ کورونا فلو کی بدلتی ہوئی رتوں کا ہم سفر ہے، یہ حلق کو متاثر کرتا ہے، پھر پھیپھڑوں پر حملہ کرتا ہے، اس کی فیملی شکلیں بدلتی ہے۔ مگر عرض یہی کرنا ہے کہ جدید سائنس اور میڈیسن کا انقلاب سر آنکھوں پر مگر طب مشرق کو بھی کورونا سے لڑنے کا موقع ملنا چاہیے۔ورنہ اہل دل یہ کہنے میں صدا حق بجانب ہوں گے کہ ترا علاج کسی چارہ گر کے پاس نہیں۔
(27 مارچ، 2020)