علاج معالجہ کے آداب

حمد وثناء کے بعد!

’’ اے مسلمانو! اللہ سے ڈرو! تقویٰ ہی بہترین کمائی اور فرماں برداری ہی سب سے اعلیٰ نسبت ہے۔ ‘‘

’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! اللہ سے ڈرو، جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے۔ تم کو موت نہ آئے، مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو۔‘‘

( آل عمران:102)

اے مسلمانو! علم طب انتہائی مفید اور مثبت اثرات رکھنے والا علم ہے ۔ اس میں مہارت حاصل ہو جانا عزت و شرف کا باعث ہے ۔ مگر وہاں تک پہنچنے کے لئے ایک سخت اور مشکل گھاٹی پر چڑھنا پڑتا ہے، جسے عبور کرنا آسان نہیں اور جسے پاٹنا انتہائی مشکل ہے۔ اس کا طالب علم بتدریج اس گھاٹی پر قدم رکھتا جاتا ہے ، یہاں تک کہ وہ اس عظیم مرتبے اور بلند مقام تک پہنچ جاتا ہے جہاں تک کوئی سنجیدہ ، جانفشانی سے کام کرنے والا اور صبر کرنے والا ہی پہنچ سکتا ہے۔ اس مقام و مرتبے کو مستقل مزاج، محنتی اور پابندی کرنے والا ہی حاصل کرسکتا ہے۔

امام شافعیؒ فرماتے ہیں:

’’ حقیقی علم دو ہی ہیں: ایک دین کی سمجھ اور دوسرا جسموں کے علاج معالجے کا علم۔ ‘‘

ربیعؒ فرماتے ہیں:

’’ میں نے امام شافعیؒ کو یہ کہتے ہوئے سنا :علم حلال و حرام کے بعد، علم طب سے افضل کوئی علم نہیں۔‘‘ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’’ایسے شہر میں کبھی نہ رہنا جس میں تمہاری حفاظت کے لئے کوئی حکم ران نہ ہو، یا سیراب کرنے کے لئے پانی نہ ہو، یا فتویٰ دینے کے لئے عالم نہ ہو، یا علاج معالجہ کرنے کے لئے کوئی طبیب نہ ہو۔‘‘

دین اسلام نے بھی علم طب کو بڑی اہمیت دی ہے ۔ صحیح بخاری کی کتاب الطب کو دیکھ لیجئے ، صحیح مسلم کی باب الطب المرض و الرقیٰ دیکھ لیجئے۔ سنن ابی دائود میں بھی کتاب الطب دیکھ لیجئے، سنن ترمذی میں بھی کتاب الطب عن الرسول ﷺ دیکھ لیجئے۔ سنن نسائی کبریٰ میں کتاب الطب دیکھ لیجئے، سنن ابن ماجہ میں بھی کتاب الطب دیکھ لیجئے۔

روایت ہے کہ ابن ماسویہ طبیب نے جب رسول اللہ ﷺ کی یہ حدیث پڑھی:’’ کسی آدمی نے اپنے پیٹ سے زیادہ برا برتن کبھی نہیں بھرا، ابن آدم کے لئے چند لقمے ہی کافی ہیں جو اس کی پیٹھ کو سیدھا رکھیں اور اگر زیادہ ہی کھانا ضروری ہو تو پیٹ کا ایک تہائی حصہ اپنے کھانے کے لئے ، ایک تہائی پانی پینے کے لئے اور ایک تہائی سانس لینے کے لیے باقی رکھے۔‘‘ تو انہوں نے کہا:’’ اگر لوگ ان الفاظ پر عمل کرلیں تو بیماریوں اور تکلیفوں سے محفوظ ہوجائیں، ہسپتال اور دواخانے خالی ہو جائیں۔‘‘ عرب کہتے ہیں: ’’دوپہر کے کھانے کا بہترین وقت جلدی والا وقت ہے اور رات کے کھانے کا بہترین وقت اندھیرا چھانے سے پہلے کا ہے۔‘‘

سمجھ دار، ماہر اور زیرک طبیب وہ ہے جو آنکھوں سے اوجھل اور چھپی بیماریوں کے پردے ہٹا کر انہیں پہچان لیتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے آلات جراحی میں رحمت رکھی ہے ، اس کی قینچی میں شفقت رکھی ہے ، اس کی سرجری میں نجات رکھی ہے ، اس کی پٹی میں عطا رکھی ہے ، اس کے ٹانکوں میں دوا رکھی ہے اور اس کی دوا میں شفارکھی ہے ۔ عرب لوگ طبیب کو حکیم بھی کہتے تھے اور رفیق بھی ،کیونکہ طبیب بیماروں کے ساتھ نرمی سے پیش آتا ہے ، انہیں تسلی بھی دیتا ہے اور ان کے ساتھ شفقت بھی کرتا ہے ۔ شفا اور عافیت تواللہ تعالیٰ ہی عطا فرماتا ہے، اگر کسی بیمار کے لئے دنیا بھر کے طبیب بھی اکٹھے ہوجائیں تو مشیت الٰہی کے بغیر اسے شفا نہیں دے سکتے۔ کیونکہ شفا تو بس اللہ تعالیٰ ہی دیتا ہے ۔ وہی بیماری سے ہمیں آزماتا ہے ، دوا سے ہماری مدد کرتا اور شفا سے ہم پر رحم فرماتا ہے۔

طبیب مجھے امید دلاتا ہے کہ میری آنکھیں تندرست ہو جائیں گی، بھلا اللہ تعالیٰکے سوا بھی ان کا کوئی طبیب ہے؟

چونکہ شفا ایسی نعمت ہے جو مریض کو طبیب سے نہیں بلکہ صرف اللہ تعالیٰسے مل سکتی ہے ، اس لئے ابراہیم علیہ السلام نے کہا تھا:

’’ اور جب میں بیمار ہو جاتا ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے۔‘‘

( الشعراء:80)

سیدنا صہیبؓ ایک بچے کا واقعہ بیان کرتے ہیں جو پیدائشی نابینا شخص، پھلبہری والے اور دیگر بیماریوں میں مبتلا افراد کا علاج کرلیتا تھا۔ بادشاہ کی محفل میں بیٹھے ایک نابینا شخص نے جب اس بچے کے بارے میں سنا تو اس کے پاس بہت سے تحفے تحائف لے کر گیا ۔ کہنے لگا: ’’ اگر تم مجھے شفا دے دو تو میں نے یہ سب چیزیں تمہارے لئے ہی جمع کی ہیں۔‘‘ بچے نے کہا: میں تو کسی کو شفا نہیں دیتا، شفا تو بس اللہ تعالیٰ ہی دیتا ہے۔ اگر تم اس پر ایمان لے آئو ، تو میں اس سے دعا کروں گا کہ وہ تمہیں شفا دے دے۔‘‘ یہ سن کر اس نے ایمان قبول کرلیا، اللہ تعالیٰ نے اسے شفا دے دے اور اس کی بینائی لوٹا دی۔(مسلم)

ہاں!اطباء اور نرسوں کی فضیلت اتنی ہے کہ بیان نہیں کی جاسکتی۔ ہمیں معلوم ہے کہ تمہارا مقابلہ ممکن نہیں! کیا کوئی سمندر کا مقابلہ بھی کرسکتا ہے؟

اطباء کی تعریف کی خوشبو پھیل گئی ہے، اس کی لطف اندوزی ہر جگہ محسوس ہورہی ہے۔

ہم نے ان کی مدح کی تو سہی، مگر ہر انداز استعمال کرنے کے بعد بھی ہم ان کی فضیلت بیان کرنے سے قاصر رہے۔

اے اطباء و طبیبات! مدح کے قصیدے آپ جیسوں کے لئے ہونے چاہئیں ۔ آپ کی مدح میں کیا کہوں؟ تم تو ہر مدح سے بلند ہو۔

تم تو مریضوں کو اپنے بچوں پر بھی ترجیح دیتے ہو، محبت اور ایثار کا انداز کوئی تم سے سیکھے۔

اے مسلمانو! یوں تو علاج معالجہ مستحب ہے مگر اسے چھوڑنے سے اگر ہلاکت کا خطرہ ہو تو یہ واجب ہو جاتا ہے ۔ سیدنا اسامہ بن شریکؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

’’ علاج معالجہ کیا کرو کیونکہ اللہ نے موت اور بڑھاپے کے علاوہ ہر بیماری کے ساتھ اس کا علاج بھی نازل کیا ہے۔‘‘(مسند احمد، ابن حبان)

اس حدیث میں موت کو سام کہا گیا ہے ۔ جب طے شدہ فیصلہ آجاتا ہے ، وقت مہلت ختم ہو جاتا ہے تو دوائیں بھی دھوکہ دے جاتی ہیں اور تدبیریں بھی بے اثر ہو جاتی ہیں۔

ہم سے پہلے بھی تو لوگ پیاروں سے بچھڑتے تھے، موت کی اس بیماری نے ہر طبیب کو بے بس کیا۔

کتنے بیماروں کی موت کا وقت ابھی نہیں آیا ہوتا تو وہ بچ جاتے ہیں۔ طبیب اور خبر گیری کرنے والے مر جاتے ہیں۔

جب طبیب تمہاری نبض دیکھتا ہے تو کہتا ہے: تمہاری دوا میرے پاس ہے۔

حالانکہ اگر طبیب کے پاس موت کو روکنے والی کوئی دوا ہوتی تو وہ خود کیوں موت کی ہولناکی برداشت کرتا؟

جب ہم بیمار ہوتے ہیں تو دوا سے علاج کی کوشش کرتے ہیں ،مگر کیا دوا موت کا بھی علاج کرسکتی ہے؟

بہت سوچ کر کسی طبیب کا انتخاب کرتے ہیں، بھلا جسے تقدیر آگے بھیجے، اسے طبیب بچا سکتا ہے؟

ہمارے سانس گنے چنے ہیں اور ہماری حرکت ہمیں فنا کی طرف دھکیل رہی ہے۔

اے مسلمانو! طبیب کو چاہیے کہ مریض میں ہمت پیدا کرنے کی کوشش کرے اور اسے تندرستی کی امید دلائے، اس کے ساتھ میٹھی میٹھی باتیں کرے، اسے جگہ دے، اسے تسلی دے، اسے خوش کرے، اس کی پریشانی کم کرے، اس کے ساتھ نرمی اپنائے، اس کے خوف اور بیتابی کو کم کرے، اس کی پریشانی اور اس کے خدشات کو ختم کرے ، اسے یاد دہانی کرائے اور تسلی دے۔ کہا جاتا ہے : ’’طبیب کی نرمی…آدھا علاج ہے۔‘‘ مریض کے ساتھ خندہ پیشانی سے ملا جائے تو اس کی تکلیف کم ہو جاتی ہے ، اسے خوش کرنے کے عظیم اثرات اور بہترین فوائد تو مخفی نہیں ہیں۔

بد مزاج ، سخت اور سنگ دل طبیب تو مریضوں کے لئے امیدوں کے خیمے اکھیڑ پھینکنے والے اور امید کی طاقت کو فنا کرنے والے طوفان سے کم نہیں ہے جو کسی تمہید یا تسلی کے بغیر ہی چھٹ سے مریض کو بیماری بتا کر ڈرا دیتا ہے ، وہ اس کی بیماری مزید بڑھا دیتا ہے۔

طبیب کو صبر سے کام لینا چاہیے، مریضوں کے حقوق کا خیال رکھنا چاہیے ، انہیں تسلی دینی چاہیے، ایسے آزمائش زدہ مریض کے ساتھ شفقت کرنی چاہیے، جس کی ہمت جواب دے رہی ہو او رجس کی تکلیف بڑھ چکی ہو.

اے اطباء! مریضوں کو تکلیف کی تنگی سے نکال کر امید کی کشادگی کی طرف لائو بیماری کی سختی سے نکال کر تندرستی کی آسانی کی طرف لائو۔

طبیب کو چاہیے کہ مریض کو اپنی جگہ پر رکھ کردیکھے۔ اس کی اس کی عزت آبرو کا خیال رکھے، اس کے راز ، راز ہی رکھے، اس کے عیب چھپائے رکھے، اگر دوسروں کو اس کی بیماری کے بارے میں مطلع کرنے سے اسے نقصان ہوسکتا ہو تو وہ کسی کو نہ بتائے۔ طبی ضرورت نہ ہو تو کسی کا ستر نہ کھولے، بیماری کی تشخیص اور دوا کی تجویز میں تحقیق، احتیاط اور محنت سے کام لے، بیماری کو پہچاننے کے لئے ثبوت اور غورو فکر سے کام لے۔ الجھائو یا پیچیدگی کی صورت میں اپنے سینئرز سے مشورہ کرلے، جلد بازی سے کام نہ لے ، جو کام نہ آتا ہو، اس میں ہاتھ نہ ڈالے۔ جسے علم طب نہ آتا ہو ، اس میں مہارت نہ ہو، جس نے مشق کرکے پختگی حاصل نہ کی ہو ، اس کے لئے دوسروں کا علاج کرنا حرام ہے۔ اگر کوئی نام نہاد جاہل طبیب لوگوں کا علاج کرتا ہے ، تو حقیقت میں وہ انہیں دھوکہ دیتا ہے اور اپنی جہالت کے سبب وہ لوگوں کا قاتل بنتا ہے، غلط طریقہ علاج اور اپنی نااہلی کے سبب جان بوجھ کر لوگوں کو نقصان پہنچاتا ہے ۔ ایسے شخص کو لازماً سزا ملنی چاہیے۔

عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ:

’’ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو علم طب سے نا آشنا ہو ، پھر بھی علاج معالجہ کرے تو وہ نقصان بھرنے کا ذمہ دار ہوگا۔‘‘

( ابو دائود ، نسائی)

امام دار قطنی کی روایت ہے کہ جسے امام حاکم نے صحیح کہا ہے کہ’’ جو علم طب سے نابلد ہونے کے باوجود علاج معالجہ کرے اور کسی کی جان چلی جائے یا کوئی اور نقصان ہو جائے تو وہ قابل سزا ہوگا۔‘‘

جاہل، نام نہاد طبیب یا مہارت نہ رکھنے والے طبیب کے لئے آپریشن کرنا جائز نہیں، نہ ان میں ہاتھ ڈالنا ہی درست ہے۔جو ایسا کرے گا ۔ وہ گناہ کرے گا۔ جرم کرے گا، ظلم کرے گا تو اپنی غلطی کا نقصان بھرے گا۔ اسی طرح اگر کسی ماہر طبیب سے کوئی خطا ہو جائے یا ایسی غلطی سرزد ہو جائے جو اس جیسوں سے ہونا ناممکن ہو، جس میں اس کی کوتاہی ، بے دہانی یا بے فکری ظاہر ہوتی ہو ، تو وہ بھی نقصان بھرنے کا ذمہ دار ہوگا۔

جاہل اطباء موت کو قریب کردیتے ہیں ، دلوں کو خوف سے بھر دیتے ہیں اور دوسروں کو ہلاکت کی طرف دھکیلتے ہیں ۔ جب مرہم پٹی کا طریقہ ہی غلط ہو تو طبیب کی کوتاہی تو واضح ہے۔

طبیب کے لیے یہ بھی جائز نہیں کہ مریض کو ایسی دوا تشخیص کرے جس کی اسے ضرورت ہی نہ ہو،مریض کی بیماری کی تشخیص کے بغیر ہی، اندازے ، گمان یا تخیلات کی بنا پر پینے ، کھانے اور انجیکٹ کرنے والی دوائیں یکجا کرکے دے دینا بھی حرام ہے۔ یعنی بیماری ہوئی تو ان میں سے کوئی دوا تو اثر کر جائے گی، کیونکہ بیماریوں کا علاج گمان سے نہیں ہوتا اور مقصد صرف بیماری کو دور کرنا ہی نہیں، بلکہ ایسے طریقے سے دور کرنا ہے جس سے کوئی نئی بیماری جنم نہ لے، نہ کوئی اور سخت بیماری شروع ہو جائے۔

بلاضرورت مختلف قسم کے بے فائدہ ٹسٹ تجویز کرکے مریض کی مجبوری سے ناجائز فائدہ اٹھانا بھی حرام ہے، جن کا مقصد صرف کاروبار کرنا اور مریضوں کو لوٹنا ہو۔ اس راستے سے آنے والی کمائی بھی کیسی بری کمائی ہے، جو مریضوں کی تکلیف اور انہیں بے جا نقصان پہنچا کر ہی حاصل ہوتی ہے۔

کچھ اطباء اور دوا خانوں میں کام کرنے والے مریض کو مہنگی دوا دے دیتے ہیں ، حالانکہ اسی نسخے کی دوسری دوا سستے داموں بھی دستیاب ہوتی ہے ۔ اس طرح وہ مختلف کمپنیوں کی تشہیر کرتے ہیں، بلکہ ان کی بعض آفرز سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ایسا کرکے وہ اپنا فائدہ مریض کے مفاد پر مقدم کردیتے ہیں۔ ایسا وہی کرسکتا ہے جس کا دل رحم دلی اور خشیت الٰہی سے خالی ہو چکا ہو، جو احساس ذمہ داری اور ایفائے عہد سے عاری ہو چکا ہو۔

سیدنا انس ؓ سے روایت ہے:’’ کم ہی ایسا ہوتا کہ رسول اللہ ﷺ خطبہ دیتے اور یہ الفاظ نہ کہتے: جو امانت دار نہیں، اس کا ایمان نہیں ، جسے معاہدوں کا پاس نہیں، اس کا دین نہیں۔‘‘(بیہقی)

اے مسلمانو! میدان طب کے شعبدہ بازوں سے بچو، جو مشکوک قسم کے شفاخانے کھول لیتے ہیں، حکومتی اجازت ناموں کے بغیر ہی مریضوں کو بلا لیتے ہیں ، علاج معالجے میں قابلیت کا دعویٰ کرتے ہیں اور جعلی ادویات بیچتے ہیں۔ ہم اپنے مسلمان بھائیوں کو ایسے نام نہاد طبیبوں سے بھی خبر دار کرتے ہیں جو سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے نسخے بلکہ وہم فروخت کرتے ہیں۔مریضوں کی جانوں سے کھیلتے ہیں۔ لوگوں کے جسم اور صحت کو واضح نقصان پہنچاتے ہیں، خطرے پیدا کرتے ہیں اور گھروں کے اندر تک پہنچ جاتے ہیں۔ ایسے ظالم فسادیوں سے بچو جو انسانی نفس کے حوالے سے بد ترین جرائم کرتے ہیں۔ حالانکہ دین اسلام نے نفس انسانی کی حفاظت اور نگہبانی لازم ٹھہرائی ہے اوراسے نقصان پہنچانے سے منع کیا ہے۔

اے مسلمانو! اللہ نے قرآن کریم کے ذریعے شعبدہ بازوں کی چالیں ٹال دی ہیں۔ تو دجالوں ، نجومیوں اور شعبدہ بازوں سے بچو جو غیب کا علم رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں، لوگوں کے دلوں کا حال جاننے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ دم درود کرنے والے فراڈیوں سے بھی بچو، جو دم درود کی شرعی حدود سے تجاوز کر جاتے ہیں اور ان میں کئی اضافے کر لیتے ہیں بلکہ ان میں بدترین ایجاد کردہ بدعتیں شامل کرلیتے ہیں۔ ان دھوکہ بازوں ، توہم پرستی پھیلانے والوں اور جھوٹے لوگوں سے بھی بچو، جو گلا دبا کر ، پھانسی دے کر ، باندھ کر ، سوئیاں چبھو کر، تعویذ دے کر یا شعبدہ بازی سے جن، جادو اور دوروں کے علاج کا دعویٰ کرتے ہیں۔ تعویذ گنڈے ، حفاظتی دھاگے اور شرکیہ دم درود فروخت کرتے ہیں ، ایسے اوہام و خرافات کو رائج کرتے ہیں جو کم عقل اور ضعیف الاعتقاد لوگوں کو فریب میں ڈال دیتے ہیں۔ سید نا عمران بن حصینؓ بیان کرتے ہیں:’’رسول اللہ e نے فرمایا : وہ شخص ہم میں سے نہیں جو فال نکالتا یا نکلواتاہے،کہانت کرتا ہے یا کراتا ہے، جادو کرتا یا کراتا ہے ۔ جو جادوئی گرہ لگائے یا کسی مستقبل کی خبریں بتانے والے کے پاس جائے، پھر اس کی بتائی ہوئی معلومات کو صحیح تسلیم کرلے ، تو اس نے نبی کریم ﷺ پر نازل ہونے والی تعلیمات کا انکار کردیا۔‘‘(مسند البزار)

جو ایسے دجالوں کے پاس جاتا ہے ، وہ ان کے جرم میں شریک ہو جاتا ہے کیونکہ وہ ان کے کسٹمرز میں اضافہ کرتا ہے اور ان کے گناہ کو ترویج دیتا ہے۔ ان کے چھپے اڈوں کے بارے میں متعلقہ حکومتی اداروں کو خبردار کرنا چاہیے۔ ان کی پردہ پوشی یا ان کے بارے میں خاموشی حرام ہے۔

اگر ہماری عزت آبرو اور عقلیں سلامت رہیں تو جسم کے زخموں کی کوئی فکر نہیں۔

دوسرا خطبہ

حمدو صلوٰۃ کے بعد:

اے مسلمانو! اللہ سے ڈرو، اسے یاد رکھو، اس کی اطاعت کرو اور اس کی نافرمانی سے بچو۔

’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کا ساتھ دو۔‘‘(التوبہ:119)

اے مسلمانو! مخلوق مصیبتوں کے نشانے پر ہے۔ کہا جاتا ہے:’’جب تک تم دنیا کے اس گھر میں ہو تو نا خوشگوار چیزوں کی آمد پر حیرانی کاہے کی؟ اس جیسا مت بنو ، جو سختی آتے ہی جزع فزع اور واویلا کرنے لگتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہو جاتا ہے ۔ نبی اکرم e کے اس ارشاد کو یاد رکھو:’’ بندے کے لئے جب اللہ تعالیٰ کے ہاں کوئی مقام و مرتبہ مقدر ہو چکا ہو اور وہ اپنے اعمال کی بنا پر اس تک نہ پہنچ سکتا ہو ، تو اللہ تعالیٰ اسے اس کے اپنے جسم یا مال یا اولادکی آزمائش میں ڈال دیتا ہے ۔پھر اللہ تعالیٰ اسے صبر کی توفیق بھی دیتا ہے ۔ حتیٰ کہ اسے اس مقام و مرتبہ تک پہنچا دیتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہلے ہی سے اس کے لئے مقدر ہو چکا ہوتا ہے۔‘‘( ابو دائود)

ایک بزرگ فرماتے ہیں:’’ اگر دنیا کی مصیبتیں نہ ہوتیں تو ہم آخرت میں مفلس ہی رہتے۔‘‘ قیس بن عبادؓ فرماتے ہیں:’’ تکلیف کے لمحات گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں۔‘‘

مومن کو یہ تمنا ہر گز نہیں کرنی چاہیے کہ اسے دنیا ہی میں سزا مل جائے، بلکہ اللہ سے عافیت مانگتے رہنا چاہیے۔ سیدنا انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک مسلمان کی عیادت کی جو لا غر ہو کر چوزے کی طرح ہوگیا تھا ۔ رسول اللہ ﷺ نے اس سے کہا :’’ کیا تم اللہ تعالیٰ سے کسی چیز کی دعا کرتے تھے اس سے کچھ مانگتے تھے؟ اس نے کہا: جی ہاں! میں کہتا تھا : اے اللہ ! تو مجھے آخرت میں جو سزا دینے والا ہے ابھی دنیا میں ہی دے دے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ پاک ہے ، تم میں اس کی طاقت نہیں یا تم اس کی استطاعت نہیں رکھتے۔ تم نے یہ کیوں نہ کہا: اے اللہ! دنیا میں بھی ہمیں بھلائی دے اور آخرت میں بھی ہمیں بھلائی دے اور آگ کے عذاب سے ہمیں بچا، پھر آپ e نے اس کے لئے دعا فرمائی تو اللہ نے اس شخص کو شفا عطا فرمادی۔‘‘(مسلم)

جب مجھے بیماری لگتی ہے تو میرا صبر تو بیمار نہیں پڑتا، اور اگر مجھے بخار ہوتا ہے تو میرے عزم کو تو بخار نہیں ہوتا۔

اگر میں تندرست بھی رہوں تو ہمیشہ تو نہ رہ پائوں گا ، بلکہ ایک بیماری سے دوسری بیماری تک ہی سلامت رہ پائوں گا۔

اے اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما! شرک اور مشرکوں کو رسوا کردے! دشمنان دین کو تباہ و برباد فرما ! تمام مسلمان ممالک کو فتنوں ، جنگوں، جھگڑوں سے محفوظ فرما۔(آمین)

٭…٭…٭

علاج معالجہ کے آداب
Tagged on:                                         

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *