محسنِ طب

مولانا حکیم عبدالرحیم اشرفؒ کی پہلو دار زندگی اس امر کی متقاضی ہے کہ ان کی حیاتِ مستعار کا ہر ہر جہت سے مطالعہ کرکے اس کی تفصیلات نذرِ قارئین کی جائیں ۔ ہر میدان میں ان کی جہدِ مسلسل کو منصہ شہود پر لا کر مستقبل کے مذہبی، سیاسی، معاشرتی، طبی غرضیکہ ہر شعبہ زندگی کے رہنمائوں کے سامنے رکھ دیا جائے تاکہ وہ اس سے روشنی پائیں، ماضی کے تجربات سے سیکھیں اور آگے سے آگے بڑھتے چلے جائیں، یوں بہتری اورخدمتِ انسانی کا سفر ان کے لئے اور بھی آسان ہو جائے۔مولانا علیہ الرحمۃ کی زندگی کا ہم سرسری سا بھی جائزہ لیں تو ہر شعبہ حیات میں ان کی خدمات اور صلاحیتوں کا ایک مضبوط ہالہ اپنے گرد بنتا دکھائی دیتا ہے۔ ان کی تحریریں ان کے فکر و منہج کی غماز ہیں اور ان کے قائم کردہ ادارے ، ان کی انتظامی صلاحیتوں کے شاہدِ عدل ہیں۔

مولانا علیہ الرحمۃ والغفران نے فن طب کو محض کسبِ معاش کے لئے اختیار نہ کیا تھا بلکہ وہ طب کو بھی دین کا ایک اہم جزو سمجھتے تھے۔ اسی لئے نہ صرف اسے عملاً اپنایابلکہ رزقِ حلال کے حصول اور ابلاغِ دین کے لئے بہترین معاون کے طور پر متعارف کروایا ۔ ان سطور میں مولانا رحمۃ اللہ علیہ کی اس فن میں خدماتِ جلیلہ کا محض ایک مختصر خاکہ پیش کیا جا رہا ہے۔

طبی تعلیم

کوئی بھی فن اس وقت تک اپنے وجود کو نہیں منواسکتا جب تک اس کی معیاری تعلیم کا اہتمام نہ کیا جائے۔ مولانا رحمۃ اللہ علیہ چونکہ خود اس فن کی اہمیت اور افادیت سے بخوبی واقف تھے لہٰذا اسے متعارف کروانے ، عام کرنے اور فروغ دینے میں اپنا بھر پور کردار ادا کیا۔ طب کی تعلیم کے لئے جب پاکستان میں باقاعدہ انتظام برائے نام تھا تو اس وقت انھوں نے 1968ء میں جامعہ طبیہ اسلامیہ کی بنیاد رکھی۔ اس درس گاہ کے قیام کا مقصد علمِ طب کو اس کی حقیقی روح کے ساتھ متعارف کروانا تھا اور وہ اس میں کامیاب بھی ہوئے۔

طب کی تعلیم کے ساتھ ساتھ انھوں نے سلیبس میں دینی تعلیم کے اسباق بھی شامل کر رکھے تھے۔ گویا تعلیم کے ساتھ ساتھ کردار سازی ان کا خاص ہدف تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ یہاں سے تعلیم پانے والا طالب علم اسلام کی بنیادی تعلیمات سے بھی واقف ہو۔ جامعہ طبیہ کے طلبہ کو جامعہ تعلیماتِ اسلامیہ کی شام کی کلاسز میں شرکت کی سہولت دے رکھی تھی۔ ترغیب کے طور پر جامعہ طبیہ اسلامیہ کے وہ طلبہ جوشام کودینی تعلیم کے لئے وقت نکالتے تھے ان کا ہاسٹل اور کھانا فری کر دیا جاتا تھا۔ ایسے اقدامات بلا شبہ ایک مشنری انسان ہی کر سکتا ہے۔ جامعہ طبیہ اسلامیہ کے طلبہ کو جہاں جدید اسلوب پر تعلیم دی جاتی ہے وہیں ان کے لئے نماز باجماعت کی پابندی اور فکری تربیت کا بھی بھر پور اہتمام کیا جاتا ہے۔

ماہ نامہ راہنمائے صحت

طب کے فروغ کے لئے 1958ء میں ماہ نامہ راہنمائےصحت کا اجراء کیا۔ اس میں جدید طبی تحقیقات اور علمی مضامین شائع کئے جاتے ہیں۔ تب سے اس کی مختلف موضوعات اور شخصیات پر کئی خصوصی اشاعتیں بھی منظرِ عام پر آچکی ہیں۔ طب پر ہونے والی اندرونی و بیرونی یلغار کا جواب بھی اس میں دیا جاتا ہے۔ اس کا معیار و کردار ہر دور میں مسلم رہا۔ اب بھی ملک کے طبی رسائل میں بلند مقام رکھتا ہے۔ اس میں شائع ہونے والے مضامین سے اطباء کرام ہی نہیں عام قارئین بھی حظ وافر پاتے ہیں۔ تقریباً 65برس سےتسلسل کے ساتھ جاری اس میگزین کی اپنی ایک تاریخ ہے جسے الگ سے تفصیلاً ذکر کیا جائے گا۔

بلڈ شوگر کو کنٹرول کرے

جب کاربوہائیڈریٹس ہضم ہوتے ہیں تو ہمارا جسم اسے سادہ شکر میں تبدیل کرکے دوران خون میں خارج کرتا ہے۔ پھر انسولین کا اخراج کرتا ہے جو خلیات کو بناتا ہے کہ خون میں موجود شکر کو پکڑ کر ایندھن یا ذخیرہ کرنے کے لیے استعمال کرے۔ بلڈ شوگر کی سطح اور زیادہ شکر والی غذائوں کے استعمال میں عدم توازن سے موٹاپے، ذیابیطس ٹائپ ٹو اور امراض قلب کا خطرہ بڑھتا ہے۔ اسٹرابیری کھانے سے گلوکوز کے ہضم کی رفتار سست ہوتی ہے، جس سے گلوکوز اور انسولین کی سطح میں اضافہ کم ہوتا ہے، جس کے باعث یہ پھل میٹابولک سینڈروم اور ذیابیطس ٹائپ ٹو کی روک تھام کے لیے مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔

پندرہ روزہ خبرنامہ طب

ماہ نامہ راہنمائے صحت کو جاری ہوئے ابھی آٹھ سال گزرے تھے کہ مولانا حکیم عبدالرحیم اشرفؒ نے پندرہ روزہ خبر نامہ طب کا اجراء کیا۔ اس میگزین میں عام فہم اور طبی مضامین عوامی رہنمائی کے لئے شائع کئے جاتے تھے۔ اس کی بھی کچھ خاص اشاعتیں شائع ہوئیں۔ دستیاب ریکارڈ کے مطابق کم و بیش 25سال تک یہ رسالہ جاری رہا ،پھر بوجوہ بند ہو گیا۔ اس میں شائع ہونے والے مضامین میں معلومات کا بیش بہا خزانہ ہے۔ طب پر تحقیق کرنے والوں کے لئے راہنمائے صحت اور خبر نامہ طب بلا شبہ نعمت غیر مترقبہ ہیں۔

تذکرہ

عام طور پر یہی کہا جاتا ہے کہ حکیم حضرات اپنےمجربات کسی کو نہیں بتاتے اور ساتھ ہی لے کر دنیا کے اُس پار جا اترتے ہیں۔ اس حوالے سے مولانا حکیم عبدالرحیم اشرفؒ نے ایک منفرد کارنامہ انجام دیا۔ تب کی سرگودہا ڈویژن کے تمام اطباء کرام سے ان کے خاص مجربات حاصل کئے۔عرق ریزی کے ساتھ ان کی چھان پھٹک کی اور پھر انہیں کتابی صورت میں تذکرہ کے نام سے شائع کر دیا۔ 190صفحات پر مشتمل یہ کتاب ایسے ہی نادر مجربات کاخزانہ ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ ایک تو وہ خاص نسخے محفوظ ہو گئے ، دوسرا ان اطباء کرام کا تعارف ہوا جس سے خود انہیں بھی فائدہ حاصل ہوا۔

اس تذکرہ کے بارے میں ماہرِ اقبالیات، عظیم مفکر و دانش ور ، سابق ڈائریکٹر الدعوۃ اکیڈمی اسلام آبادجناب پروفیسر عبدالجبار شاکرؒ رقم طراز ہیں:

’’ 1967ء میں حکیم صاحب موصوف نے ’’ تذکرہ…..اراکین پاکستان طبی کانفرنس‘‘ مرتب کیا۔190صفحات پر مشتمل اس تذکرے میں55اطباء کرام کا تعارف اور ان کے معروف و مجرب معالجات کی تفصیل فراہم کی گئی ہے۔ اطبائے اسلام کے ہاں ان کے مجربات ایک صدری راز کا درجہ رکھتے ہیں۔ اس تذکرے کے ذریعے پہلی مرتبہ اخوانِ فن اور افادۂ عام کے لئے انہیں مرتب کرکے شائع کیا گیا ہے۔ افسوس کہ اطبائے اسلام نے ادویات و مفردات میں تحقیق کے عمل کو سائنٹیفک بنیادوں پر آگے نہیں بڑھایا۔ حکیم صاحب موصوف طبی تحقیق کے اس اسلوب کے بہت بڑے داعی تھے۔ ‘‘   ( مولاناِبرَ عبدالرحیم اشرف ؒ:حیات و خدمات صفحہ166)

اسی تذکرہ کے متعلق خود مولانا حکیم عبدالرحیم اشرفؒ کے تاثرات کچھ یوں ہیں:

’’ یہ مرقع جمیل ، جو آپ کے ہاتھوں میں ہے، اگر آپ اس کے مطالعہ سے یہ محسوس فرمائیں کہ اس کے ذریعہ فن اور ابنائے فن کی خدمت کا لائقِ اتباع نمونہ پیش کیا گیا ہے اور اس پیش کش کے ذریعہ متعدد ایسے راز ، فنی اخوان کی خدمت میں پیش کئے گئے ہیں، جن میں سے کئی ایسے ہیں جو انمول بھی ہیں اور ان سے خدائے قدوس کی مخلوق کی خدمت کے فریضہ سے بطریقِ احسن سبکدوش ہوا جاسکتا ہے…..تو یہ احساس اس صداقت کی مستحقِ التفات دلیل ہے کہ حاملینِ فن کا اتحاد وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے اور ہمیں ذاتی اور گروہی مفادات سے بلند تر ہو کر مثبت انداز میں ابناءِ فن کی بہبود میں ہمہ تن مصروف ہو جانا چاہیے۔ ’’اگر یہ کام اخلاص سے کیا جائے تو بالیقین رضائے الٰہی کے حصول کا ذریعہ ہو گا اور اس سے ہم سیاہ کاروں کے گناہوں میں تخفیف ہو گی۔‘‘ (تذکرہ: صفحہ4)

طبی حج وفد

مولانا حکیم عبدالرحیم اشرفؒ کے فروغِ طب کے لئے اٹھائے گئے اقدامات میں سے ایک قدم طبی حج وفد بھی ہے۔ حجاج کرام کی طبی امداد کے لئے اطباء کرام کو سرکاری سطح پر بھجوانا یقیناً سعادت بھی ہےاور خدمت بھی۔ مولانا علیہ الرحمہ نے ذاتی تعلقات پر ہمیشہ اجتماعی مفاد کو ترجیح دی۔ جنرل ضیاء الحق مرحوم سے اپنے مراسم کو اطباءِ کرام کے اجتماعی وقار اور مفاد کے لئے استعمال کیا اور طبی حج وفد کا اجراء کروایا۔ ہر سال حج کے موقع پر دیگر خدمت گاروں کے ساتھ اطباء کرام بھی روانہ ہوتے، حجاج کی خدمت کرتے اور ساتھ ہی ساتھ حج کی سعادت بھی حاصل کرتے رہے۔ جب پہلی مرتبہ یہ حج وفد روانہ ہو رہا تھا تو مولانا رحمۃ اللہ نے ان الفاظ میں اظہار فرمایا:

’’اطبائے پاکستان کا یہ دیرینہ مطالبہ تھا کہ حجِ بیت اللہ کے موقع پر حجاز مقدس جانے والے طبی دستہ میں اطباء کو بھی نمائندگی دی جائے۔ خدا کا شکر ہے کہ گزشتہ سال صدرِ مملکت جناب جنرل محمد ضیاء الحق نے ذاتی طور پر اس مطالبے کو شرف قبولیت سے نوازا اور یوں پاکستان کی طبی تاریخ میں پہلی مرتبہ چار اطباء اور چھ معاونین پر مشتمل دس رکنی طبی حج وفد دیارِ مقدسہ کو گیا اورمکہ مکرمہ و مدینہ منورہ میں ہزاروں حجاجِ کرام کی خدمت کی ۔طبی حج وفد کی اس کارکردگی کو وسیع پیمانے پر سراہا گیا۔ خود صدر مملکت نے بعد کے ایک منعقدہ اجلاس میں اطباء کی خدمات کو اچھے الفاظ میں یاد کیا اور یہ نوید سنائی کہ آئندہ سال سے نہ صرف طبی حج وفد مستقل طور پر حجازِ مقدس جایا کرے گا بلکہ اس کے ارکان کی تعداد میں بھی اضافہ کیا جائے گا۔‘‘ (خبرنامہ طب: جلد18شمارہ 9، صفحہ3)

صرف طب اسلامی

کائنات کی تخلیق کے ساتھ ہی معالجات کا آغاز بھی ہو گیا تھا۔ طب ہی سب سے قدیم طریقہ علاج ہے۔ انبیاء و رسل بھی اپنے اپنے ادوار میں جڑی بوٹیوں سے علاج معالجے کی رہنمائی دیتے رہے۔ کتبِ احادیث میں جہاں دیگر ابواب پر احادیث جمع کی گئی ہیں وہیں باقاعدہ ہر کتاب میں طب کے ابواب بھی قائم کئے گئے ہیں، گویا اسلام اور طب کا چولی دامن کا ساتھ ہے ۔جنھیں ایک کو دوسرے سے کبھی بھی جدا نہیں کیا جا سکتا۔ طب کو مختلف ادوار میں مختلف تہذیبوں اور علاقوں سے منسوب کیا جاتا رہا۔ گزشتہ عہد تک جس تہذیب نے سب سے زیادہ ذہنوں پر اثر کیا وہ یونانی تہذیب ہے۔ یہاں طب کو فروغ دینے میں بہت سے اقدامات اٹھائے گئے اس لئے آج تک جڑی بویٹوں سے طریقہ علاج کو طب یونانی کا ہی نام دیا جاتا ہے۔ جناب حکیم محمد سعید مرحوم نے اس طریقہ علاج کو طبِ مشرق کا نام دیا جبکہ مولانا حکیم عبدالرحیم اشرفؒ نے اسے طبِ اسلامی قرار دیا۔ مولانا علیہ الرحمۃ نے یہ نام محض ذاتی پسند کی بنا پر اختیار نہ کیا تھا بلکہ نظری، فکری اور مضبوط دلائل کے باعث اپنایا تھا۔ بیشتر طبی ورثہ عربی میں اور دین بھی عربی میں ، انبیاء و رسل کا طریقہ علاج اور دیگر عوامل کے باعث مولانا ؒ کا اختیارکردہ نام ہی قرینِ قیاس لگتا ہے۔

مولانا حکیم عبدالرحیم اشرفؒ سے اس حوالے سے جب پوچھا جاتا تو آپ مدلل جواب عنایت فرماتے۔ بلکہ اسی بارے میں ان کا ایک انٹرویو بھی اشاعت پذیر ہوا جس کے چند ابتدائی سوالات اور مولانا علیہ الرحمۃ کے جوابات یہاں پیش کئے جاتے ہیں تاکہ آپؒ کا نقطۂِ نظر واضح ہو سکے کہ انھوں نے اسے طبِ اسلامی کیوں قرار دیا:

سوال: حکیم صاحب ! آپ چونکہ ’’طبِ یونانی‘‘ کے نام لیوا ہیں کچھ بتاسکیں گے کہ اس دور میں ’’ طبِ یونانی‘‘ کی افادیت کس حد تک قابلِ اعتماد ہے؟

جواب : معاف کیجئے گا ، میں سب سے پہلے اس کی تصحیح کرنا چاہتا ہوں کہ میں ’’طبِ یونانی‘‘ کا نہیں ’’ طبِ اسلامی‘‘ کا حلقہ بگوش ہوں اور اسی کی افادیت پر کچھ عرض کر سکتا ہوں۔

سوال: یہ بات عجیب بھی ہے اور دلچسپ بھی، مگر کیا یوں تو نہیں کہ آپ محض مذہبی تصورات کے غلبہ کی وجہ سے طب کے ساتھ ’’ اسلامی‘‘ کا اضافہ کر رہے ہیں وگرنہ ہم تو بالعموم طبِ یونانی ہی کی بات سنتے آئے ہیں۔

جواب: نہیں ایسا ہر گز نہیں ، میں اپنی اس طب کو ، جسے اسلامی عہد میں ترتیبِ نَو دی گئی اور جسے عہدِ رسالت سے خاندانِ شریفی تک کے اطباء اور ان سے استفادہ کرنے والوں نے برصغیر ہند و پاک میں ترویج و ترقی سے ہم کنار کیا، اسے ’’ طبِ اسلامی‘‘ ہی سمجھتا ہوں اورمیں اسے ’’ طبِ یونانی‘‘ تسلیم کرنےکیلے ہر گز تیار نہیں ہوں۔

سوال: بہت خوب! میری دلچسپی مزید بڑ ھ گئی آپ براہِ کرم اپنے ان دونوں نکات کی وضاحت کیجئے۔ ایک تو یہ کہ یہ طب یونانی نہیں ہے دوسرے یہ کہ اس طب کو صرف ’’ طبِ اسلامی‘‘ ہی کہنا چاہیے۔

جواب: جی ہاں! مجھے بھی اس سے تعلقِ خاطر ہے کہ میں ان ہر دو نکات کی وضاحت کروں تو سنیئے!

’’طب کے بارے میں تمام اصحابِ علم و فن اور مؤرخین جانتے ہیں کہ اگرچہ انسان کو ابتدائے آفرینش سے دوسری ضروریاتِ زندگی کی طرح اپنے جسمانی عوارض و امراض سے عہدہ برآ ہونے کا واسطہ پڑا اور وہ ہر دور میں، ماحول کے مطابق اپنی بیماریوں کا علاج کرتا رہا …..اور اس میں بھی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ فاطرِ حقیقی نے انسان کو پیدا کرنے کے ساتھ ہی شعورِ زیست ہی نہیں دیا، اسے زندگی گزارنے اور زندگی میں پیش آنے والے حوادث سے عہدہ برآ ہونے کے طریقوں کی راہنمائی سے بھی نوازا اور اگر بیماریوں کو ’’حوادث‘‘ کہا جا سکتا ہے تو یقیناً ان سے نجات پانے کی راہنمائی بھی محدوث ہے مگر دوسرے بہت سے علوم و فنون کی طرح فنِ طب نے بھی بتدریج مراحلِ ترتیب طے کئے ہیں اور جیسے ’’فلسفہ‘‘ نے یونان میں ایک خاص ۂیت اختیار کی، طب نے بھی یونان میں خاصی شہرت حاصل کی مگر یہ نہ سمجھا جائے کہ اس ’’ شہرت‘‘ کا باعث اس فن کی علمی تدوین تھی بلکہ واقعہ صرف اسی قدر ہے کہ ’’یونانی‘‘ زندگی کے بہت سے شعبوں میں اپنے دور میں دوسروں سے سبقت لے گئے، فلسفہ ان کی فکری کاوشوں کا عنوان خاص تھا۔ اسی دور میں انھوں نے طب کی جانب بھی توجہ کی اور چونکہ قدیم یونان میں اسقلیبیوس (Aesculaplus) جسے یونانی اپنے مشرکانہ عقائد کے مطابق ’’ طب کا دیوتا‘‘ مانتے تھے ،کے زمانہ سے ’’طب‘‘ کے نام سے جھاڑ پھونک کے ذریعے یونانی معبدوں کے پجاری مریضوں کا علاج کرتے تھے، اس لئے جب یونانی دانش وروں نے دوسرے علوم و فنون کی جانب توجہ کی تو اپنے مذہبی پردہتوں کے اس ’’فن‘‘ کو بھی انھوں نے لائقِ التفات سمجھا۔ اسی ا سقلیبیوس کی نسل یونان کے ایک جزیرہ جس کا نام ’’قو‘‘ ہے میں آباد تھی اور حسنِ اتفاق سے یہی ’’ قو‘‘ بعد میں ’’بقراط‘‘ کا مسکن بنا۔ اور ’’بقراط‘‘ وہ شخصیت ہے جسے طبی لٹریچر میں ’’ابوالطب‘‘ کا نام دیا گیا۔ بقراط نے تاریخ میں پہلی مرتبہ طب کو سائنٹیفک بنیادوں پر استوار کرنے کا کام شروع کیا اور اسی سلسلہ کی تکمیل جالینوس کے ہاتھوں ہوئی۔

سوال: قطع کلام معاف ! یہ تو ہوئی طبِ یونانی کے آغاز و تکمیل کی داستان ،آپ اس پر روشنی ڈالیے کہ آپ جسے ’’ طبِ اسلامی‘‘ کہتے ہیں وہ کیا ہے اور اسے طبِ یونانی کہنا کس لئے آپ کے نزدیک غیرضروری ہے۔ ورآں حالیکہ آپ کی اس گفتگو سے تو ذہن اس جانب متوجہ ہوتا ہے کہ یہ بقراط اور جالینوس ہی کی طب ہے جسے آپ ’’ طبِ اسلامی‘‘ کا نام دیتے ہیں۔

جواب: نہیں جناب ایسا ہر گز نہیں۔ ابھی طب یونانی کے جس دور کے بارے میں گفتگو ہو رہی تھی اس دور میں دنیا میں متعدد نظریہ ہائے علاج رائج تھے جن میں مصری، رومی ، ایرانی ، ہندی اور عربی طبیں موجود تھیں۔

جب ساتویں صدی عیسوی میں حضور سرورِ کونینﷺ کی نبوت کا سورج طلوع ہوا تو اس کی ضیاء پاشیوں نے انسانی دنیا ہی نہیں انسانی اذہان کے تمام گوشوں کو منور کیا اور اس کا مظہر طب بھی تھی۔ چنانچہ سب سے پہلے تو خود حضور خاتم النبیین علیہ التحیہ و التسلیم نے ہی اس طب کی داغ بیل ڈالی جسے آج ہم اسلامی کہتے ہیں۔‘‘

سوال: بہت خوب ! اگرچہ بات طویل ہو رہی ہے تاہم مختصر طور پر اتنا تو بتا ہی دیجئے کہ طب کو اسلامی بنانے یا اسلامی کہنے کا قانونی مفہوم کیا ہے؟

جواب: میں اس سوال کے لئے بطور خاص ممنون ہوں ۔ دوسرے تمام علوم و فنون کی طرح ، علمِ طب کو اسلامی بنانے کا فارمولا یہ ہے:
(الف) طب کے فلسفے میں، مرض اور شفاء اور ادویہ کی تاثیر کا سرچشمہ ، اللہ تعالیٰ کی ذات کو یقین کیا جائے۔
(ب) طبی مشغلہ کو اللہ ذوالجلال کی رضا حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھا جائے اور اس تصور سے مریض کا علاج اور اس سے معاملہ کیا جائے کہ خود غرضی ، بیماروں کی مجبوری سے ناجائز فائدہ حاصل کرنے، علاج میں بددیانتی اور غیر ذمہ دارانہ طرزِ عمل اختیار کرنے سے میرا اور مریض کا خالق و مالک ناراض ہو گا اور اس کے برعکس ، اخلاص ، توجہ ، ہمدردی اور جذبۂ خدمت پر وہ اپنی خوشنودی سے مجھے سرفراز فرمائے گا۔
(ج) علمِ طب کے ذریعہ انسانی جسم کی ساخت اس کارخانہ کے حیرت انگیز افعال کے مشاہدے ، ادویہ کے محیر العقول اثرات ، ان میں غور و فکر کو ، ان کے اور اپنے خالق کی عظمت اور ان کی صفاتِ عالیہ کو سمجھنے کا ذریعہ بنایا جائے۔
(د) معالجات میں، شرعی حدود اور حرام وحلال کی پابندی کی جائے…..اگر کوئی فنِ علاج ان چار اصولوں پر مبنی ہے تو اسے لازماً ’’ اسلامی طب‘‘ ہی کہا جائے گا۔ اس کے سوا اس کا کوئی بھی دوسرا نام رکھنا اس کی عظمت کی نفی کے مترادف ہو گا۔ (خبرنامہ طب ، طب اسلامی نمبر:نومبر1983ء صفحہ 8-7)

مولانا حکیم عبدالرحیم اشرفؒ کے اسی نظریہ کے بارے میں سینئر صحافی اور کالم نگار جناب عبداللہ طارق سہیل لکھتے ہیں:

’’مروّج طبِ یونانی میں اگرچہ طبِ ہندی(آیورویدک) کے کچھ نسخے بھی شامل ہیں لیکن مجموعی طور پر طبِ یونانی کی موجودہ شکل عرب و ہند کے مسلمان حکماء، معالجین اور ماہرینِ طب و نباتات اور کیمیا ء دانوں کی دی ہوئی ہے، اس لئے اسے طبِ اسلامی کا نام دینا زیادہ جامعِ مطلب اور صحت کے قریب ہے۔ ایک اعتراض یہ ہو سکتا ہے کہ فن یا علم کا مذہب نہیں ہوتا، لیکن کچھ دائروں میں یہ اعتراض وضاحت ملانے پر ختم ہو جاتا ہے ۔ مثال کے طور پر طب کے تمام لوازمات اگر اسلامی دائرے کے اندر ہوں تو اسے اسلامی کیوں نہ کہا جائے۔ دنیا کی کسی طب میں حلال او ر حرام کا فرق نہیں رکھا جاتا ، جبکہ طبِ اسلامی میں رکھا جاتا ہے، پھر طبِ اسلامی کا فلسفہِ علاج اپنی روحانیت میں مختلف ہے۔’’اسلامی حکیم‘‘ وہ ہے جو مریض کو شفایاب کرنے کی ذمہ داری اپنی ہمہ گیر ’’عبودیت‘‘ کا جزو سمجھتا ہے۔ اس کا عقیدہ ہے کہ اگر مریض کو اس کے ہاتھ سے شفاء مل گئی تو اس کا اصل اجر وہ عوضانہ نہیں جو مریض دے گا بلکہ وہ اجر ہو گا جو خدا تعالیٰ کے حضور سے ملے گا۔‘‘ ( مولانا عبدالرحیم اشرف ؒ:حیات و خدماتصفحہ317)

مولانا حکیم عبدالرحیم اشرفؒ کی طبی خدمات کا چند سطور میں احاطہ ناممکن ہے۔ انہوں نے جہاں اور جیسے بن پڑا اپنا کردار ادا کیا۔ نجی سطح پر اور سرکاری سطح پر بھی اس کی اہمیت کو اجاگر کیا اور اطباء کو ان کا مقام دلوانے کی کوشش کی۔ اطباء کی رجسٹریشن، طبی تعلیمی اداروں کے قیام، اطباء کے لئے سرکاری ملازمتوں کا اجراء، حج میڈیکل مشن میں اطباء کی شمولیت اور دینی مدارس کے فارغ التحصیل طلبہ کو طبیہ کالجز میں داخلے کا استحقاق دلوانے جیسے کئی اقدامات کیے۔ بڑے اجتماعات میں طب پر مقالےپیش کئے اور لیکچر دیئے۔ عملی اعتبار سے خود طب کی تعلیم کے لئے جامعہ طبیہ اسلامیہ، طبی دوا سازی کے لئے اشرف لیبارٹریز اور علاج معالجے کے لئے مطب اشرف کے ساتھ طبی مشاورتی بورڈ قائم کیا۔ ہر ہر ادارے اور شعبے کی ایک طویل داستان ہے۔ ان کی خدمات کو الگ الگ تفصیل سےپیش کیا جائے گا، ان شاء اللہ۔ اختصار کے پیش نظر یہاں ہم صرف دو تین شخصیات کے تاثرات پر اکتفا کرتے ہیں۔

مولانا ارشاد الحق اثری ، عظیم محقق و مصنف ، ادارہ علوم اثریہ فیصل آباد کے مہتمم، اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق رکن اور چالیس سے زائد کتب کے مصنف ہیں۔ وہ مولانا کی طبی خدمات کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’ حضرت مولانا مرحوم دینی علوم کے پہلو بہ پہلو، علمِ طب کے بھی ماہر تھے۔ جامعہ طبیہ اسلامیہ اور اشرف لیبارٹریز وغیرہ ان کی یاد گار ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے طبی بورڈ بھی تشکیل دے رکھا تھا، جس سے فیصل آباد کے علاوہ دور دراز سے مریض آکر استفادہ کرتے۔ تجویز و تشخیص میں ان کا ایک مقام تھا اور مختلف حکمائے کرام کی رائے کے بعد فیصلہ بالآخر وہ خود فرمایا کرتے تھے۔

’’ایک بار میں معدہ و جگر کے عارضہ میں مبتلا ہوا۔ طبیعت سخت مضمحل رہنے لگی۔ اِدھر اُدھر سے علاج کرایا، مختلف ادویات استعمال کیں، مگر صحت سنبھل نہ سکی ۔ اسی دوران ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو وہ دیکھ کر خودپریشان ہوئے۔ ان کے رس بھرے الفاظ مجھے آج بھی یاد ہیں کہ ’’ میں تمہیں صحت مندو توانا دیکھنا چاہتا ہوں۔ ‘‘ اس کے ساتھ فرمایا کہ اتوار کے روز میرے پاس اشرف لیبارٹریز میں آنا۔ میں طبی بورڈ سے تمہارے بارے میں مشورہ کروں گا۔ چنانچہ میں حسبِ حکم ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو وہ مجھے مرحوم حکیم عبداللہ خاں نصر کے پاس لے گئے اور ان سے فرمایا :حکیم صاحب !اس نوجوان سے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں مگر یہ بیمار ہے، اسے ذرا غور سے دیکھیں اور علاج تجویز کریں۔ انہوں نے برجستہ فرمایا، بالکل ٹھیک ، مگر شرط یہ کہ دوائی آپ وہ دیں جو میں خود تجویز کروں۔ آپ اس میں کوئی ردو بدل نہ کریں۔ مولانا مرحوم نے فرمایا :آپ جو دوائی تجویز کریں وہ خواہ کتنی ہی قیمتی کیوں نہ ہو، میں اسے دینے سے گریز نہیں کروں گا۔ چنانچہ حکیم صاحب نے بغور معائنہ کرنے کے بعد نبض متعین کی۔ مرض کی تعیین کے ساتھ ساتھ دوائی بھی تجویز فرمائی جو غالباً فولاد و مشک کا مرکب تھا۔ یوں اس دوائی سے اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے صحت بہت حد تک درست فرما دی۔ والحمد للّٰہ علی ذالک۔‘‘ ( مولانا عبدالرحیم اشرف ؒ:حیات و خدمات صفحہ60-59)

مولانا اسرار الحق صدیقی قاسمی فاضل دیوبند ، سابق معلم دارالعلوم اکوڑہ خٹک اور معروف طبیب مولانا حکیم عبدالرحیم اشرفؒ کے نیاز مند ہیں۔ اشرف کی طبی خدمات کے بارے میں اپنے تاثرات کا اظہار یوں کرتے ہیں:

’’ مولانا مرحوم کی کاروباری ساکھ، ادویہ سازی کی صنعت میں اصالت و سلاست، باہم کاروبار میں رزقِ حلال کی میزان میں موزوں، اصولِ اسلامی کی شدت سے پابندی سے سرفراز تھی۔ شکایات کا ازالہ (جو کبھی کم ہی برائے نام ہوئیں)، گاہک کی تسلی، دل جوئی ، خوب سے خوب ترکی تلاش اور فنِ شریف کی ترقی کا ہدف ہمیشہ ہی پیشِ نظر ہوا کرتا تھا۔ یہ اُمور جس طرح ان کی قلبی روحانی فرحت کو بڑھایا کرتے ، اسی طرح سے ہمیں بھی ان کی روحانی خوشی میں علی سبیل الاشتراک اپنے حصہ میں حظِ و افر ملتا رہتا تھا۔ کبھی رقوم کی کمی بیشی ، ادویات کی مغرم ٹوٹ پھوٹ یا معیار سے گراوٹ کی کوئی شکایت اتنے زمانہ میں نظر میں نہیں آئی۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ سلسلہ علاج الامراض میں ادارہ کی مصنوعات سے معالجین کو باساس اجزائے خالصہ و تأثیراتِ ترکیبی ایک نوع کا قابلِ ذکر اطمینان ہوا کرتا تھا۔ مستزاداً ایک اطمینان یہ ہوتا تھا کہ ایک فنی ادارہ ترقی پذیر ہے،ہوا ہی کرے، مگر ہمارے زیادہ سکونِ دل کا باعث یہ سوچ ہوتی تھی کہ ادارہ اشرف محض طبّی ادارہ ہی نہیں ہے، دینی و رفاہی اوردعوتی ادارہ بھی ہے۔

’’ادارہ کے مفردات و مرکبات ، معاجین و ایار جات، اطریفلات ، جوشاندہ جات و خیساندہ جات، عروق واشربہ، قیرو طیات، حبوب و اقراص ، اطلیات و دھنیات ، مفرحات و خمیرہ جات، مسکنات و مبردات ، مقویات ، موانعِ حمیات و دوافع امراضِ متعدیہ و سعوطات و مراہم ، جواہرو تکلیسات، مبہیات و منشطات و دافعاتِ زیادتی ٔ صفراء و بلغم اور دم و سوادء وغیرہ ،تداوی امراض کے میدان میں کار آمدو نافع ہیں اور بعض تو برء الساعۃ ہیں ۔ مگر ساتھ ساتھ یہ سب کچھ ثانویاً اشاعتِ دین و مالہ الدین کی مساعی کے بھی مساعد و موید ہیں، اوریہ سرمایہ ایک ذاتی نجی فرد کے بجائے قومی امانت کے بطور ہمدرد ، مضبوط اور دین آشنا متدیّن ہاتھوں میں جا رہا ہے، جو فروختِ ادویات کے ساتھ ساتھ اشاعتِ دینِ متین کا فریضہ بھی اولاً و بالذات انجام دے رہا ہے۔ اَللّٰھُمَّ زِدْ فَزِدْ وَ بَارِکْ لَنَا فِیْہِ۔ ادارہ نے اپنے زمانہ ٔعروج میں ہی رفاہی کام انجام دینا شروع کر دیئے تھے۔ حصولِ علمِ طب بظاہر روزگار اور بباطن خدمت ِخلق اور حسنِ نیت کے باعث ، عبادت بھی ہے۔‘‘ (مولانا عبدالرحیم اشرف ؒ:حیات و خدمات صفحہ46-45)

حافظ صلاح الدین یوسفؒ ممتاز مصنف ، مفسر، محقق نے مولانا کی طب سے وابستگی اور خدمات کو یوں خراجِ تحسین پیش کیا ہے:

’’جامعہ تعلیماتِ اسلامیہ‘‘ کے نام سے انہوں نے ایک دینی مدرسہ بھی قائم کیا جس کے وہ سربراہ اور ہر طرح سے سرپرست تھے۔ اس کے ساتھ انہوں نے ایک جدت یا پیوند کاری یہ کی کہ ایک طبیہ کالج بھی قائم کیا اور علماء کو ترغیب دی کہ وہ دینی علوم سے فراغت کے بعد ، طبّی تعلیم حاصل کریں اور طبابت کا باوقار پیشہ اختیار کرکے دین کی تبلیغ و دعوت کا کام کریں۔ اس طرح علماء ایک تو معاشی طور پر کسی کے محتاج نہیں ہوں گے، دوسرے ، اس طرح وہ زیادہ مؤثر طریقے سے دین کا کام کر سکیں گے۔الحمد للہ مرحوم کے قائم کردہ یہ دونوں ادارے بدستور قائم ہیں اور معاشرے کی دینی و طبّی ضروریات کا اہتمام کر رہے ہیں۔ صَانَھُمَا اللہُ عَنِ الشُّرُوْرِوَالْفِتَنِ۔ ’’اشرف لیبارٹریز کا قیام بھی ان کی بے پناہ ہمت، اَن تھک جدوجہد اور آہنی عزم و ارادہ کا آئینہ دار ہے۔ اعلیٰ معیار کی سربند دوائیں تیار کرنا کوئی معمولی کام نہیں تھا، لیکن مرحوم کی مسلسل محنت و ریاضت نے یہ مشکل مہم بھی سَر کر لی، جس سے انہیں شہرتِ دوام بھی حاصل ہوئی اور مالی وسائل بھی میسر آئے۔ اس سے قبل ان کی صرف ایک جانِ ناتواں تھی، لیکن عزائم بلند اور ہمت جواں تھی، اس لئے تیشۂ فرہاد سے کوہ کنی کرتے رہے ، بالآخر اللہ نے مدد کی اور جوئے شیر نکالنے میں کامیاب ہوگئے۔ اب اسی جوئے رواں سے ان کے لگائے ہوئے تمام پودے سیراب ہو رہے اور اپنا اپنا پھل دے رہے ہیں، ہفتہ روزہ المنبر مذہبی اور اصولی صحافت کی علم برداری کر رہا ہے، جامعہ تعلیماتِ اسلامیہ اسلام کے مبلّغ اور داعی تیار کرنے میں اور اشرف لیبارٹریز مسیحائی میں مصروف ہے، جبکہ طبیہ کالج، علماء اور دیگر معزز لوگوں کو معاشرے میں باوقار طریقے سے جینے کا عزم و حوصلہ عطا کر رہا ہے۔‘‘ ( مولانا عبدالرحیم اشرف ؒ:حیات و خدمات صفحہ301-300)

اے پاک پروردگار! اپنے بندے مولانا عبدالرحیم اشرفؒ کی قبر پر اپنی بےپایاں رحمتوں کی برکھا برسا۔ آپ کے بندوں کی خدمت کے لئے انھوں نے جو کارہائے نمایاں انجام دئیے انہیں شرفِ قبولیت عطا فرما۔ یہی جون کا مہینہ تھا جب آپ کا بندہ عبدالرحیم اشرفؒ آپ کی بارگاہ میں حاضر ہو گیا تھا، الٰہی انہیں کروٹ کروٹ جنت الفردوس نصیب فرما۔ اپنے خاص بندوں میں شامل کراور اعلیٰ علیین میں مقام نصیب فرما۔ ان کی حسنات کو قبول فرما اور بشری لغزشوں سے درگزر فرما۔ الٰہی انہیں اپنے عرش کے سایہ کا حق دار بنا دے، آمین۔

محمد سلیم جباری

٭…٭…٭

محسنِ طب

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *