محسنِ طب

21دسمبر1978 ء کا دن پاکستان کی طبی تاریخ میں اپنی تابناکی کے لحاظ سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔یہ وہ روز سعید تھا جب محسن طب اسلامی و اطبائے پاکستان شہید صدر جنرل محمد ضیاء الحق کے حکم پر پہلی کل پاکستان طبی کانفرنس کا انعقاد اسلام آباد میں ہوا تھا۔ پاکستان کی تاریخ میں اپنی نوعیت کی یہ پہلی کانفرنس تھی جس کے طلب کرنے کااعلان ضیاء شہید نے 23اکتوبر 1978ء کو فیصل آباد میں کیا تھا۔ یہ شہر اپنی اس سعادت پر نازاں ہے۔

شہید صدر کی طلب کردہ اس کانفرنس میں ملک بھر سے پچاس سے زائد ممتاز اطبائے کرام نے شرکت کی، جن میں سے نمایاں ترین شخصیات جناب حکیم محمد سعید، جناب حکیم نیر واسطی، جناب حکیم مولانا عبدالرحیم اشرف، جناب حکیم آفتاب احمد قرشی، جناب مولانا غلام غوث ہزاروی اور جناب حکیم شرف الحق کی تھیں ۔ اس کانفرنس میں وفاقی وزیر صحت میر صبح صادق کھوسو اور وفاقی وزیر قانون جناب اے ۔کے بروہی نے بھی شرکت کی۔

اس کانفرنس کا انعقاد ضیاء شہید کی طب اسلامی سے محبت اور اطبائے پاکستان سے ان کے دلی لگائو کو عملی ثبوت تھا۔ انہوں نے خود اس کانفرنس کی صدارت فرمائی ۔ اطبائے کرام کی تقاریر سنیں، ان کی تجاویز اور مطالبات پر بھرپور توجہ دی۔ اور ثابت کردیا کہ طب اسلامی کی ترویج وترقی سے ان کی گہری دلچسپی، طبی تاریخ میں ایک روشن باب کا اضافہ کرے گی۔

ذیل میں ہم طبی کانفرنس کے افتتاح کے موقعہ پر شہید صدر کے خطاب دلآویز کے اقتباسات قارئین کرام کی خدمت میں پیش کررہے ہیں ۔ خطاب اتنا مؤثر اور جاندار ہے کہ اس کے کسی جملے کو بھی ترک کرنے پر طبیعت آمادہ نہیں ہورہی تھی ۔ بہر حال چند مختصر سے حصوں کو چھوڑ کر بقیہ خطاب… تاریخی خطاب… کو پڑھیئے اور تجزیہ کرلیجئے کہ پاکستان کی بیالیس سالہ تاریخ میں کسی سربراہ مملکت نے طب اسلامی سے اپنی محبت کا ایسا مظاہرہ کبھی کیا ہے؟(ز۔ا)

بسم اللہ الرحمن الرحیم نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِیّ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ۔
وزیر صحت ، محترم صبح صادق کھوسو صاحب،
جناب بروہی صاحب،
سیکرٹری وزارت صحت جنرل سی۔کے۔ حسن صاحب،
معزز مندوبین
اور حاضرین گرامی!

السلام علیکم! یہ طبی کانفرنس میری ذاتی خواہش اور میرے ایماء پر منعقد ہورہی ہے ۔ اس کانفرنس کا مقصد ملک میں طبی سہولتیں بہتر بنانا اور اطباء کو درپیش مسائل کو حل کرنے کے لئے باہمی طور پر تبادلۂ خیال کرنا ہے۔ مجھے امید ہے کہ اس تبادلۂ خیال سے عملی اقدامات کی راہ کھل جائے گی ۔ میراتجربہ ہی نہیں بلکہ ایمان بھی ہے کہ اگر نیک نیتی سے بیٹھ کر مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی جائے تو پھر نصرتِ الٰہی اس میں ضرور شامل ہوتی ہے۔

سب سے پہلے میں شعبۂ طب سے متعلق تمام حضرات کو یہ یقین دلاتا ہوں کہ اس پیشے سے متعلق حکومت یا کوئی اورادارہ کسی قسم کے تعصب میں مبتلا نہیں ہے بلکہ موجودہ حکومت کی یہ دلی خواہش اور کوشش ہے کہ یہ شعبہ بھی زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح ترقی کرے اور قومی ترقی و بہبود میں بھرپور طریقے سے اپنا کردار ادا کرے۔ یہ کانفرنس اسی خواہش کو عملی جامہ پہنانے کی طرف ایک قدم ہے ۔ طبی شعبے یا اسلامی طریقۂ علاج کو آگے بڑھانے کا مقصد نہ صرف اس پیشے سے متعلق لوگوں کی حوصلہ افزائی کرنا ہے بلکہ اس طریقے سے ایک اہم قومی ضرورت کو بھی پورا کرنا ہے۔ وہ ضرورت اس ملک کی سات کروڑ آبادی کو علاج معالجے کی سہولتیں مہیا کرنا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد ایلو پیتھک طریقہ علاج پر نسبتاً زیادہ توجہ دی گئی اور ہر صوبے میں ایک یا ایک سے زیادہ ایلو پیتھک میڈیکل کالج قائم کئے گئے ہیں ۔ حکومت کی پالیسی یہ ہے کہ ایلو پیتھی کے ساتھ ساتھ اسلامی طریقہ علاج یا دیسی طریقہ علاج کی بھی حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ افراد کو طبی سہولتیں مہیا کی جاسکیں۔

ہمارے ملک کی آبادی کا بیشتر حصہ دیہات میں رہتا ہے۔ عموماً طبی سہولتوں سے محروم رہتا ہے ۔ جو ڈسپنسریاں دیہات میں قائم کی گئی ہیں وہ اپنی جگہ مفید سہی مگر ناکافی ہیں ملک میں اب بھی ایسے علاقے موجود ہیں جہاں ہمارے ہم وطنوں کو نیم حکیموں پر بھروسہ کرنا پڑتا ہے جن کی تشخیص سے مرض توشاذو نادر ہی ختم ہوتا ہے لیکن مریض ہمیشہ کے لئے اس دنیا سے کوچ کر جاتا ہے ۔میں سمجھتا ہوں کہ ان ’’انسان کش ‘‘ ماہرین سے نجات دلانے میں باقاعدہ تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ اطباء اہم کردار ادا کرسکتے ہیں ۔ اس سلسلے میں حکومت نے1965ء میں ایکٹ جاری کیا تھا جس میں اس سال ترمیم کی گئی ہے ۔میں فی الحال اس ایکٹ کی ترمیم کا اعلان نہیں کرنا چاہتا بلکہ اس وقت چھیڑوں گا جب ایجنڈے کے مختلف Items کے متعلق اپنے خیالات پیش کروں گا ۔ اس سلسلے میں فی الحال یہ کہوں گا کہ میں ایک بورڈ بنانا چاہتا ہوں جو کہ اطباء ، سائنس دانوں، ڈاکٹر حضرات اور حکومت پاکستان کے نمائندوں پر مشتمل ہوگا۔ بورڈ اس ایکٹ کا جائزہ لے گااور اطباء میں غلط فہمیاں پیدا کرنے کی بجائے اس ایکٹ کو ان کی بہتری کے لئے از سر نو مرتب کرنے کی غرض سے اپنی سفارشات پیش کرے گا۔

جہاں تک آپ کے اس مطالبے کا تعلق ہے کہ بعض حکیموں اور طبیبوں کو ان کی کوالیفیکیشنز کی بجائے صرف تجربے کی مدت کی بنیاد پر رجسٹریشن کی سہولت دی جائے تو میرے خیال میں اس مطالبے کے تسلیم کرنے سے ہم آگے کی بجائے پیچھے کی طرف قدم اٹھائیں گے ، کیونکہ وقت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم صرف دقت معاش کو مد نظر نہ رکھیں بلکہ معاشرے کو صحیح ،تربیت یافتہ،نیک اور تجربہ کار اطباء و حکماء سے استفادہ کرنے کا موقع دیا جائے لہٰذا میرا مشورہ یہ ہے آپ ان کو باقاعدہ طبی اداروں میں تعلیم دلوائیں اور ان کی کامیاب کارکردگی کے بعد انہیں حکیم یا طبیب کا باعزت مقام دیں ۔ حکومت آئندہ مالی سال کے لئے طبی منصوبے کے تعین کے وقت ان اضافی ضرورتوں کا بھی خیال رکھے گی۔

طبی ریسرچ اور ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کا قیام

ایک اور شعبہ جس پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ ہے دیسی طریقہ علاج کے لئے ریسرچ یعنی تحقیق ۔ہمارے ہاں دیسی طریقہ علاج اب بھی بہت مؤثر اور مقبول ہے، لیکن ڈاکٹر ، سائنس دان اور حکیم اس وقت قوم کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔جب ان تینوں قسم کے افراد کو ایک جگہ اکٹھا کیا جائے تو وہ صحیح معنوں میں ایک ایسا طریقہ علاج ایجاد کرسکیں جس سے آبادی کے زیادہ سے زیادہ حصہ کو فائدہ پہنچ سکے۔ آپ کو شاید معلوم ہوگا کہ ہمارے ہاں جو ہیلتھ لیبارٹریز ہیں ، ان میں اس وقت دو حکیم صاحبان بھی کام کررہے ہیں ، لیکن مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان کی کارکردگی تسلی بخش نہیں ہے۔ رات میں جنرل حسن صاحب سے پوچھ رہا تھا کہ اتنے عرصے سے یہ دو حکیم صاحبان جو کام کررہے ہیں ان کی کارکردگی کیا ہے۔ میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ان کی طرف سے ایسی کوئی پیش قدمی نہیں ہوئی جس کا مَیں آج اعلان کرسکوں۔ ہوسکتا ہے ان کی حوصلہ افزائی نہ ہوئی ہو یا کوئی اور وجوہات ہوں جن کی وجہ سے یہ حکیم صاحبان اپنی کارکردگی نہیں دکھا سکے اس لئے آج میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ وزارت صحت کے ماتحت ایک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ قائم کیا جائے گا جس کا تعلق صرف اسلامی یا دیسی طب کے ساتھ ہوگا۔

مشیر طب کے نئے عہدے کا قیام

چونکہ موجودہ مالی سال آدھا گزر چکا ہے اور آدھا باقی ہے۔ اس لئے اس وقت حکومت کے وسائل میںاتنی گنجائش نہیں ہے کہ اس سلسلے میں کوئی رقم مختص کی جاسکے، لیکن اس کے باوجود میں محکمہ صحت میں ایک طبی ایڈوائزر کی آسامی کا اعلان کرتا ہوں۔ ان کا عہدہ وفاقی حکومت کے وزیر مملکت ، سیکرٹری یا سیکرٹری جنرل کے عہدے کے برابر ہوگا۔ اس آسامی پر فوری طور پر اچھے اور عالم اطباء میں سے کسی ایک کی تقرری کی جائے اس کو اسلامی طب کا مشیر کہا جائے گا۔

ریسرچ سنٹر کے قیام کے لئے پانچ لاکھ روپے

اس کے علاوہ وز ارت صحت کے ماتحت ایک ریسرچ سنٹر قائم کیا جائے گا۔ میں اس کے مالی معاملات کے لئے پانچ لاکھ روپے کا اعلان کرتا ہوں تاکہ موجودہ سال کے دوران یہ رقم خرچ کی جاسکے اس سنٹر کا دائرہ کار کیا ہوگا ۔ اس کا فیصلہ وہ خود وزارت صحت کے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے کرے گی اور اس بات کا جائزہ لے گی کہ کن کن چیزوں پر ریسرچ کی ضرورت ہے اور کس طریقے سے دیسی دوائوں یا طبی دوائوں کی حوصلہ افزائی کی جاسکتی ہے۔

ریسرچ بورڈ

ریسرچ بورڈ وہ اجتماعی بورڈ ہوگا جس کی طرف حکیم سعید صاحب نے اشارہ کیا ہے۔ اس بورڈ میں ڈاکٹر، سائنس دان اور طبیب سب شامل ہوں گے ۔ اگر ان کو ایلو پیتھی کے آلات یا جدید لیبارٹریوں کی ضرورت پڑے تو ہمارے پاس سنٹرل ہیلتھ لیبارٹریز موجود ہیں جن میں تمام سہولتیں موجود ہیں۔ ضرورت کے وقت وہ ان سہولتوں سے استفادہ کرسکتے ہیں ۔ میں وزارت صحت سے توقع کرتا ہوں کہ وہ طبی بورڈ یا اس دوسرے بورڈ ، جس کا ذکر میں بعد میں کروں گا ، کی سفارشات کو حکومت کی منظوری کے لئے پیش کرے گی تاکہ ان سفارشات کی روشنی میں ریسرچ بورڈ کی تشکیل کی جاسکے۔

ایکٹ 1965ء پر نظر ثانی

جہاں تک 1965ء کے ایکٹ کا تعلق ہے تو آپ سب یہ کہہ چکے ہیں کہ یہ اطباء کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے لئے بنایا گیا ہے اور اس سے ان کی حوصلہ شکنی کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ چنانچہ آج اس سلسلے میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ حکیم سعید صاحب اور حکیم نیر واسطی صاحب کی سرکردگی میں ایک نظر ثانی بورڈ قائم کیا جائے گا ۔ اس بورڈ میں ان کے ماتحت تین اور اطباء بھی کام کریں گے ، اس کے علاوہ سیکرٹری صحت، حکومت پاکستان کی طرف سے اس بورڈ میں شامل ہوگا، جبکہ ایک ڈاکٹر کو بھی اس بورڈ میں شامل کیا جائے گا جس کا تعین وزارت صحت کرے گی۔ سات افراد کا یہ بورڈ1965ء کے ایکٹ کا اور اس میں 1978ء کی ترمیم کا جائزہ لے گا اور حکومت کو اس میں ترمیم کے لئے اپنی سفارشات پیش کرے گا۔

ایک صاحب نے 1975ء میں قائم شدہ ایک کمیشن کا بھی ذکر کیا ہے ۔ اس کمیشن کی رپورٹ اس وقت میرے پاس موجود ہے ۔ پچھلی حکومت نے اس پر کیوں عمل نہیں کیا یا ابھی تک ہم اس پر کیوں توجہ نہیں دے سکے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ ان وجوہات سے قطع نظر میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جو بورڈ 1965ء کے ایکٹ کا جائزہ لے گا وہی بورڈ حکومت کو یہ بھی سفارش کرے گا کہ آیا اس کمیشن کی رپورٹ میں کسی ردو بدل کی ضرورت ہے۔ اگر وہ کسی ایسے ردوبدل کی ضرورت کو محسوس کرتا ہے تو اسے کرنے کا اختیار ہوگا۔

صحت کے بنیادی پروگرام میں اطباء کی شمولیت

جہاں تک آپ کے ایجنڈے کا تعلق ہے تو اس میں بنیادی طور پر نو آئیٹم شامل ہیں۔ پہلا آئیٹم یہ ہے کہ اطباء اور وید صاحبان کی خدمات سے صحیح استفادہ کرنے کے لئے ان کو صحت کے بنیادی پروگرام میں شامل کیا جائے ۔ اس سلسلے میں ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ جو اطباء تعلیم یا تجربے کے لحاظ سے اس پروگرام میں شامل کرنے کے قابل ہوں گے ان کو شامل کیا جائے گا ۔ اس کے بعد ان کے لئے تین چار مہینے کے ایک کورس کا اہتمام کیا جائے گا۔ اس کورس کی تکمیل کے بعد تربیت یافتہ افراد کو باقاعدہ طور پر صحت کے بنیادی پروگرام میں شامل کیا جائے گا ۔ مستند اور غیر مستند اطباء کے درمیان جو امتیاز قائم ہے، مَیں اس کو ختم کرنے کے حق میں نہیں ہوں۔ اعداد و شمار کے مطابق اس وقت ملک میںمستند اطباء کی تعداد 2952( دو ہزار نو سو باون) اس کے علاوہ کیٹگری’’اے‘‘ کے اطباء کی تعداد 3457(تین ہزار چار سو ستاون) جبکہ کیٹگری ’’بی‘‘ کے طبیبوں کی تعداد 27000(ستائیس ہزار) ہے۔ اس طریقے سے 34,258(چونتیس ہزار دو سو اٹھاون) طبیب ہیں ۔ ہمیں اور آپ کو آم کھانے ہیں یا گٹھلیاں گننی ہیں۔ آم ہی تو کھانے ہیں۔ تو آم کھانے کا اصول یہ ہے کہ آپ آم کھایئے۔ حکومت کی طرف سے تمام اطباء کو پریکٹس کرنے کی اجازت ہوگی اور ان کے جو مسائل ہیں ان پر بھی توجہ دیں گے، لیکن جہاں تک سٹیٹس(Status) کا تعلق ہے تو اگر آپ اس کو کھچڑی بنائیں گے تو کل آپ بھی مولیوں کے حساب سے بکیں گے۔ طب کے پیشے کا اگر کچھ وقار باقی ہے تو ان لوگوں کی بدولت ہے جنہوں نے حقیقی معنوں میں طب کی خدمت کی ہے ۔ اس سلسلے میں حکیم سعید صاحب اور حکیم نیر واسطی کے نام سر فہرست ہیں۔ پاکستان میں ان کے علاوہ بھی بہت سے اچھے حکیم موجود ہیں۔

سہولتوں کی فراہمی کا وعدہ

آپ تو یہ سوچئے کہ آپ کو اپنا کام کرنے کی غرض سے کون سی سہولتیں دی جاسکتی ہیں اور اس سلسلے میں حکومت آپ لوگوں کے لئے کیا کچھ کرسکتی ہے۔ اس طرف ہماری توجہ ہے ۔ یہ جو باقی باتیں ہیں یہ صرف سیاست ہے اور اس میں معاشی پہلو شامل ہیں ۔ اس سلسلے میں ہم چند ایک اور ایسے اقدامات کریں گے جن سے یہ دقت رفع ہو جائے گی۔

میڈیکل سرٹیفکیٹ کے اجراء کی اجازت کا مسئلہ

ایجنڈے کا تیسرا آیٹیم میڈیکل سرٹیفکیٹ دینے کے متعلق ہے ۔ مَیں اس وقت اس کے متعلق کوئی اعلان نہیں کرنا چاہتا ،لیکن میں نے سات آدمیوں کا جو بورڈ بنایا ہے اسے مَیں نے تین کام حوالے کئے ہیں۔ ایک یہ ہے کہ 1965ء کے ایکٹ کا جائزہ لیا جائے ۔ دوسرا یہ کہ ریسرچ کونسل کی تشکیل کس طرح ہو اور تیسرا یہ کہ میڈیکل سرٹیفکیٹ دینے کے لئے کس طریقہ کار کو اختیار کیا جائے ، کیونکہ اس کا نہ صرف طبی پہلو ہے بلکہ اس کا ایک قانونی پہلو بھی ہے۔ قانونی پہلو یہ ہے کہ اگر ایک طبیب یہ کہے کہ فلاں شخص کی موت فلاں وجوہات کی بنا پر واقع ہوگئی ہے اور وہ اس کے متعلق (Death Certificate) دیں گے تو اسے تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ اس لئے سب سے پہلے اس بات کا جائزہ لینا ہے کہ اس طریقہ کارکو اختیار کرنے کے لئے کن حدود کی ضرورت ہے۔ پھر ان حدود کو پورا کرنے کے لئے حکومت کی طرف سے کس طرح کا آر ڈی ننس یا نوٹیفکیشن جاری ہونی چاہے جس میں اس مسئلے کے تمام قانونی پہلوئوں کو مد نظر رکھا گیا ہو تاکہ اس کے بعد جو بھی طریقہ کار اختیار کیا جائے اس پر عمل کرنے کے سلسلے میں کوئی رکاوٹ باقی نہ ہو۔میں نے جو کمیٹی تشکیل دی ہے میں اس سلسلے میں درخواست کروں گا کہ وہ اس امر کی طرف خصوصی توجہ دے اور مجھے بتائے کہ میڈیکل سرٹیفکیٹ کی کیا حدود ہونی چاہئیں اور کس طریقہ کار کے تحت اطباء میڈیکل سرٹیفکیٹ جاری کرسکیں گے ۔ اس قانونی پہلو کے متعلق بروہی صاحب کے مشوروں سے استفادہ کیا جائے گا۔

سرکاری طبی ڈسپنسریوں اور ہسپتالوں میں طبی شعبوں کا قیام

اس کے بعد کہا گیا کہ ایسی سرکاری ڈسپنسریاں قائم کی جائیں جن میں دیسی طریقہ علاج کے تحت لوگوں کا علاج ہو۔ اس کے علاوہ موجود ہسپتالوں میں کچھ بستر دیسی طریقۂ علاج کے لئے مخصوص کئے جائیں۔ مَیں اس چیز کے حق میں ہوں کہ اطباء کی خدمات سے پوری طرح استفادہ کیا جائے لیکن کھچڑی پکانے کا قائل نہیں ہوں۔ ایک ڈاکٹر صاحب جو کہ نہایت شریف آدمی ہیں۔ ابن سینا کی کتاب کا ترجمہ کیا ہے ۔ آپ بھی پڑھ کر دیکھئے ۔ ڈاکٹر صاحب نے اس کتاب کی ایک کاپی مجھے بھی دی تھی۔ وہ نہایت کارآمد کتاب ہے ۔ آپ حضرات سے مَیں درخواست کروں گا کہ اس کتاب کو ضرور پڑھیئے۔ ڈاکٹر صاحب نے اس کتاب پر اپنی تمام زندگی صرف کی ہے ۔ فی الحال حکیم اور ڈاکٹر کے درمیان جو دیوار حائل ہے اس کو ہٹانے کے لئے وقت چاہیے۔ پچھلے تیس سال میں ہم نے اس دیوار کو مزید مضبوط بنا دیا ہے ۔ اس لئے ایسے کام یک لخت نہیں ہوسکتے۔ اس کے لئے وقت چاہیے اور یہ کام تدریج کے ساتھ ہوسکتا ہے ۔ مَیں اس بات کے حق میں ہوں کہ دیہی اور شہری علاقوں میں طبی طریقہ علاج کے لئے علیحدہ ڈسپنسریاں ہونی چاہئیں، باقاعدہ ہسپتال ہونے چاہئیں، لیکن میں اس کے حق میں نہیں ہوں کہ ایک ہی ہسپتال میں دو یا دو سے زیادہ طریق علاج اختیار کئے جائیں۔ ایلو پیتھی طریقہ علاج کو اپنا کام کرنے دیجئے، لیکن موجودہ ڈسپنسریوں اور مستقبل میں قائم ہونے والی ڈسپنسریوں میں ہم علیحدہ طریق علاج اختیار کریں گے۔ اس سلسلے میں ہم طبی بورڈ اور نئے قائم ہونے والے ریسرچ بورڈ کی خدمات حاصل کریں گے۔ اس کے علاوہ میں ایک اور طریقہ کا ر اختیار کرنے والا ہوں جس کا اعلان میں کروں گا… ان شاء اللہ اگلے سال کے بجٹ میں مخصوص دیہاتوں میں ایسی دیہی ڈسپنسریاں قائم کریں گے جن میں طب اسلامی یا دیسی طریق علاج کے تحت لوگوں کا علاج کیا جا ئے گا ۔ جس سے نہ صرف آپ حضرات کی معاشی دقتیں دور ہوں گی بلکہ آپ کی حوصلہ افزائی بھی ہوگی۔

طبی فارما کوپیا کا مسئلہ

جہاں تک فارما کوپیا کا تعلق ہے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ پہلے ہم ریسرچ بورڈ قائم کریں گے ۔ ایک آپ کا طبی بورڈ ہے جس کے متعلق چند ایک شکایات آئی ہیں اور کہا گیا ہے کہ طبی بورڈ کی تشکیل ٹھیک نہیں ہے۔ کھوسو صاحب ان شکایات کا جائزہ لیں گے۔ اگر ضرورت ہو تو اسے از سر نو تشکیل دیا جاسکتا ہے ۔ اس میں کچھ اور حضرات کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے ۔مَیں نے حکیم سعید اور حکیم نیر واسطی کی زیر نگرانی سات افراد کا ایک بورڈ قائم کیا ہے جس سے آپ کی یہ شکایات رفع ہو جائیں گی کہ جناب وزارت صحت میں ہماری کوئی سننے والا نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ہم ایک ریسرچ کونسل بھی بنا رہے ہیں۔ توا ن تمام اداروں کی موجودگی میں یہ کہنا کہ جہاں تک فارما کوپیا کا تعلق ہے تو اس کے ساتھ بورڈ کے علاوہ حکومت کا کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے ، یہ چیز غلط ہے۔

الگ طبی ڈائریکٹوریٹ کے قیام کا مسئلہ

علیحدہ ڈائریکٹوریٹ کے متعلق مَیں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ فی الحال ہمارا ایسا کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس کے لئے ابھی اتنے مالی وسائل موجود نہیں ہیں اور دوسری وجہ یہ ہے کہ فوری طور پر اس کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ سب سے پہلے ہم ریسرچ انسٹی ٹیوٹ اور ریسرچ کونسل بنا رہے ہیں ۔ اگر ریسرچ کونسل کے قیام کے چھ مہینے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے اور وزارت صحت کو یہ تسلی ہوگئی کہ اس شعبے میں اب کام اتنا بڑھ گیا یا اس میں کام کی اتنی گنجائش ہے کہ وزارت صحت میں آپ کی صرف نمائندگی نہیںبلکہ علیحدہ ڈائریکٹوریٹ ہونا چاہیے تو اس کا جائزہ لے کر اسے اگلے مالی سال میں شامل کریں گے، لیکن اگر ہم نے کوئی اور طریق کار اختیار کیا تو اس کے متعلق ہم آپ کو پہلے بتائیں گے تاکہ آپ کی تکالیف کا صحیح طریقے پر خیال رکھا جاسکے۔

طبیہ کالجوں کا جائزہ

اس کے علاوہ میں کھوسو صاحب کی یہ ذمہ داری لگاتا ہوں کہ وزارت صحت ایک ایسا بورڈ تشکیل دے جس میں موجودہ طبیہ کالجوں کے تین اچھے پرنسپل صاحبان شامل ہوں اور اگر طب کی تعلیم و تدریس کے سلسلے میں کوئی اور قابل ذکر فرد ہو تو اسے بھی اس بورڈ میں شامل کیا جائے۔ چار یا پانچ افراد کا بورڈ موجودہ گیارہ طبیہ کالجوں کی صورت حال کا جائزہ لے اور حکومت کو آئندہ دو یا تین مہینوں میں یہ رپورٹ پیش کرے کہ ان طبیہ کالجوں کی حالت کس طرح بہتر بنائی جاسکتی ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ اس بات کا بھی جائزہ لے کہ اور کون کون سے علاقے ایسے ہیں جہاں طبیہ کالجوں کے قیام کی ضرورت ہے کیونکہ بعض حضرات نے یہاں کہا ہے کہ صوبہ سرحد اور صوبہ بلوچستان میں ان کالجوں کو قائم کیا جائے۔ مَیںاس سلسلے میں صرف سفارشات نہیں ، تفصیلی رپورٹ چاہتا ہوں ۔یہ تو مجھے بھی معلوم ہے کہ طبیہ کالج قائم ہونے چاہئیں۔ یہ بورڈ اپنی رپورٹ میں مجھے واضح طور پر بتائے کہ مجوزہ کالجوں پر کتنا پیسہ خرچ ہوگا اور آیا دو یا چار کالجوں کو چلانے کے لئے اساتذہ بھی موجود ہیں؟ یا ابتداء میں صرف ایک کالج بنانے پر اکتفا کیا جائے اور پھر اگلے سال دوسرا کالج بنادیا جائے۔جیسا کہ حکیم صاحب نے بتایا ہے کہ صرف کالجوں کے قیام کے متعلق ایک پانچ سالہ منصوبہ تیار کرکے اگلے تین مہینوں میں مجھے دیں ، تاکہ مَیں اگلے سال کے بجٹ میں اس مقصد کی خاطر ایک خصوصی اور اچھی خاصی رقم مختص کرسکوں اور ان طبیہ کالجوں کی حالت بہتر بنائی جاسکے۔ حکومت ان طبیہ کالجوں کو اپنی تحویل میں لینے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی کیونکہ پرائیویٹ نظم و نسق کے تحت چلنے والے اداروں کو اگر آپ حکومت کی تحویل میں دیں گے تو ان کا بھی وہی حشر ہوگا جوکہ قومیانے کے بعد تعلیمی اداروں کا ہوا ہے، اس لئے ہمارا یہ ارادہ نہیں ہے، لیکن حکومت کی طرف سے ان اداروں کی مالی مشکلات حل ہونی چاہئیں۔

طب کو سیاست سے پاک کیجئے

اس کے علاوہ جو سب سے بڑی گندگی آگئی ہے وہ سیاست ہے۔ آج ہم بغیر سیاست کے کوئی کام کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ مَیں آپ سے درخواست کروں گا کہ کم از کم طب کے شعبے کو تواس گندگی سے پاک رکھیے۔ یہ ایک عام تاثر ہے کہ حکیم نہ صرف حکمت ہی کرتے ہیں بلکہ اخلاق کا درس بھی دیتے ہیں۔ اس لئے اخلاقیات کو فروغ دینے کے لئے بھرپور کردار ادا کریں۔ اس سلسلے میں آپ اپنا کردار اس طرح ادا کرسکتے ہیں کہ سیاست کو نکال باہر کیجئے۔ آپ میں حکمت کے ذریعے عام لوگوں کی خدمت کا جذبہ موجزن ہو تاکہ آپ کے مسائل بھی حل ہوں، طب کو بھی فروغ حاصل ہو اور حکومت اس سلسلے میں آپ کے ساتھ بھرپور تعاون کرے گی۔

طب کی سند کو ڈگری قراردینے کا مسئلہ

ایم۔ بی۔ بی۔ ایس کی ڈگری دینے کے متعلق مَیں فی الحال کچھ نہیں کہنا چاہتا کیونکہ موجودہ حالات میں اس کے بہت سے Implicationsہیں۔ ایم۔بی۔بی۔ایس کی ڈگری حاصل کر لینے سے کوئی آدمی ڈاکٹر یا حکیم نہیں بن جاتا۔ آپ اپنی طب کو اتنی ترقی دیجئے کہ آپ کو ایم۔بی۔بی۔ایس کی ڈگری کی ضرورت ہی محسوس نہ ہو۔ پرنسپل صاحب نے اپنی تقریر میں بتایا ہے کہ طبیہ کالجوں میں ان ڈاکٹر وں کو لیکچر دینے سے منع کیا جاتا ہے جو میڈیکل کالجوں میں پڑھاتے ہیں ۔ آپ کی اس دقت کو مَیں فوراً دور کئے دیتا ہوں۔ آج سے ڈاکٹروں پر طبیہ کالجوں میں لیکچر دینے پر کوئی بندش نہیں ہے۔

اطباء اور ٹیلی ویژن

ا س کے ساتھ ساتھ میں وزارت اطلاعات و نشریات کو ہدایت جاری کروں گا کہ پچھلے دنوں ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ نے ٹیلی ویژن پر ’’تن کی دنیا‘‘ کے نام سے جو پروگرام شروع کیا تھا اس میں کسی حکیم صاحب کو بھی شامل کیجئے تاکہ وہ بھی تن کی دنیا کے متعلق بتائیں ۔مجھے یاد ہے کہ جب میں چھوٹا بچہ تھا تو مَیں نے حکیم نیر واسطی صاحب کی دوائی استعمال کی تھی۔ہمدرد کی دوائیاں مَیں نے استعمال کی ہیں۔ سعالین تو ہر گھر میں آپ کو ملے گی۔ اسی طرح جب پچھلے دنوں میری طبیعت خراب ہوئی تو بروہی صاحب نے مجھے اپنے حکیم سے خمیرہ گائوزبان لا کر کھلایا ۔ پاکستان میں نہ صرف پڑھے لکھے لوگ بلکہ مختلف طبقوں کا دیسی طب کی طرف رجحان ضرور ہے لیکن بعض وجوہات کی بنا پر حکومت کی سرپرستی اسے نہیں ملی ہے۔

اطباء میں اتحاد کی ضرورت

اس کے علاوہ آپ کی آپس کی نا اتفاقی نے اسے نقصان پہنچایا ہے۔ آپ اپنے پیشے کو اصلی معنوں میں ترتیب دیں۔ اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کیجئے۔ آپ اپنی حالت خود بہتر بنانے کی کوشش کریں۔ حکومت ہر طرح سے آپ کے ساتھ بھرپور تعاون کرے گی۔ مَیں وزارت اطلاعات کو یہ ہدایات جاری کروں گا کہ ٹی وی اور ریڈیو کے پروگراموں میں دیسی طب کی تشہیر کو خصوصی اہمیت دیں تاکہ آپ اپنے پیشے کو اجاگر کرسکیں۔

اطباء کی توقیر و احترام

جو حضرات آج واپس تشریف لے جانا نہیں چاہتے اور مجھ سے ملنا چاہتے ہیں تو وہ جنرل سی۔کے حسن صاحب اور وزیر صحت کھوسو صاحب کو بتادیں اور آٹھ بجے میرے گھر تشریف لے آئیں۔ اگر آپ کسی وفد کی صورت میں مجھ سے ملنا چاہتے ہیں یا کچھ سفارشات پیش کرنا چاہتے ہیں یا ذاتی طور پر ملنا چاہتے ہیں تو وزیر صحت صاحب کے ساتھ وقت مقرر کرلیجئے۔ ان شاء اللہ ہفتہ دس دن کے بعد مَیں آپ کی خدمت کے لئے حاضر ہوں گا۔

پانچ لاکھ کا عطیہ

لیجئے ماشاء اللہ آپ کو پانچ لاکھ روپیہ حکومت پاکستان نے دیا ہے اور حکیم سعید صاحب نے کہا کہ پانچ لاکھ روپیہ آپ کو ہمدرد فائونڈیشن کی طرف سے دیا جائے گا ۔ اس طرح یہ دس لاکھ روپے ہوگئے۔ مَیں آپ حضرات کا مشکور ہوں کہ آپ نے مجھے یہ موقع دیا ۔ مجھے امید ہے کہ اس کانفرنس کے اچھے نتائج برآمد ہوں گے۔ ہم نہ صرف یہاں بات چیت کرنے کے بعد رخصت ہو جائیں گے بلکہ اس بات چیت سے پاکستان کی صحت کی پالیسی پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ پاکستان زندہ باد۔

٭…٭…٭

محسنِ طب

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *