نباتی ادویات کی عالمی تجارت میں پاکستان کا حصہ

قومی پریس میں شائع شدہ ایک تجزیے کے مطابق دنیا بھر میں نباتی ادویات کی مانگ میں اضافہ ہورہا ہے ۔ اس کی تجارت 130 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے ۔ اس تجارت کا سب سے زیادہ فائدہ چین اور بھارت اٹھا رہے ہیں جبکہ پاکستان کااس میں حصہ 0.25 فی صد سے بھی کم ہے۔ حالانکہ پاکستان جو 500 سے زائد ادویاتی پودے اور جڑی بوٹیاں اگا رہا ہے وہ نباتی ادویہ کی عالمی تجارت میں کئی گنا اضافے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

ایک طرف چین اور بھارت اور دوسری طرف پاکستان کے تجارتی حصے میں زمین و آسمان کا سا یہ تفاوت محض اس لئے ہے کہ چین اور بھارت نے نباتی طب کو اپنا قومی ورثہ سمجھ کر اس کی ترویج و ترقی کے لیے بے پناہ کو ششیں کی ہیں۔ ان دونوں ممالک کی حکومتیں اپنے اپنے مقامی طریق ہائے علاج اور ان کی صنعت دوا سازی کی سرپرستی کرتی ہیں۔ ان کے بنائے ہوئے ادارے تعلیمی نظام کی بہتری کے لیے بھی کام کرتے ہیں اور دوسری جانب ریسرچ اور تحقیق کے لئے بھی ہمہ تن کوشاں رہتے ہیں ۔ اگرچہ بھارت میں طب یونانی کی بجائے طب آیورویدک کی سرپرستی کے لئے زیادہ فراخ دلی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے اور اسے مقامی سطح پر فروغ دینے اور بین الاقوامی سطح پر اس کی ادویات کی برآمد پر زیادہ جبکہ طب یونانی کے طریق علاج اور اس کی ادویات پر کم توجہ دی جاتی ہے ، پھر بھی وہاں ایک مکمل وزارت صرف متبادل نظام ہائے علاج کی ترقی کے لئے بنائی گئی ہے اور اس میں سبھی متبادل نظام ہائے طب کے معالجین و ماہرین کی نگرانی میں ان کی ترویج کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔ چینی طب کی ترویج و ترقی اور اس کی ادویات کی برآمد میں اضافہ بھی چینی پالیسی کا حصہ ہے ۔یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں ممالک نباتی ادویہ کی عالمی مارکیٹ میں اپنا بھاری بھر کم حصہ وصول کررہے ہیں۔

پاکستان کی صورتِ حال ان دونوں ممالک سے یکسر مختلف ہے۔ یہاں نباتی طریق علاج کی حوصلہ شکنی کا عمل تسلسل کے ساتھ جاری وساری ہے، معاملہ طبی تعلیم کا ہو یا اس کے حاملین کی خدمات سے استفادے کا ، اس میں تحقیق کا شعبہ ہو یا اس کے فن دوا سازی کا ، اس کے مختلف شعبوں کے لئے قانون سازی کا عمل ہو یا قوانین کے نفاذ کا، ہر عمل ان لوگوں کے سپرد کردیا جاتا ہے جو اس نظام کی مبادیات و اساسات سے ہی آگاہ نہیں ہوتے۔ تقریباً یہ سارے امور بالعموم وہ لوگ سرانجام دیتے ہیں جو ذہنی طور پر نظام طب سے ہم آہنگ ہی نہیں ہوتے اور نہ ہی اس کی افادیت کو تسلیم کرنے کا کوئی داعیہ ان کے دلوں میں موج زَن ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے اسلاف کے اس عظیم ورثے کی ترویج و ترقی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں، ایسے ایسے قوانین و ضوابط تشکیل دیئے جاتے ہیں جن پر عمل درآمد کا نتیجہ اس نظام کو مزید پستیوں میں دھکیلنے کے سوا اور کچھ نہیں نکلتا۔ ملک میں معیاری طبیہ کالجز کے قیام میں حکومت کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے ، پرائیویٹ سیکٹر کو سدھارنے میں نہ سرکار میں کوئی جذبہ پایا جاتا ہے اور نہ ہی وابستگان طبیہ کالجز میں، پبلک سیکٹر میں ایک ”آمر”… جنرل محمد ضیاء الحق شہید…  کے عہدمیں طبی ڈسپنسریاں قائم کی گئیں تو جمہوری دور نے اسے ”مردہ گیڈر” میں تبدیل کردیا۔ بیورو کریسی نے بالعموم اس نظام علاج کی مخالفت کی اور اس کی کونسل( قومی طبی کونسل) سے اختیارات چھین کر اسے اپاہج بنا کے رکھ دیا ۔ اس فن کے شعبۂ دوا سازی کے لیے قوانین و ضوابط ایسے لوگوں سے ، سٹیک ہولڈر کی مشاورت کے بغیر، بنوائے گئے جن کا دور دور تک بھی اس سے کوئی ناطہ و تعلق نہ تھا، اور پھر عمل درآمد بھی ان لوگوں کے ذریعے کیا گیا ، جنہیں طبی دوا سازی کی شد بد بھی نہ تھی۔ نتیجتاً سینکڑوں معیاری طبی دوا ساز ادارے موت کے گھاٹ اتر گئے۔

ایسے میں پاکستان نباتی ادویات کی عالمی تجارت میں اپنا حصہ کیوں کر وصول کرے؟ ضرورت اس امر کی ہے کہ طبی تعلیم سے طبی ادویات کی تیاری اور ان کی برآمد تک کے جملہ امور طب اسلامی/ یونانی کے ماہرین کے سپرد کردیئے جائیں ۔ حکومت کا کام صرف سہولت کار کا ہونا چاہیے، تب ، ان شاء اللہ العزیز، ہم عالمی سطح پر طب کے قائد و امام بھی ہوں گے اور طبی ادویات کی برآمد کے ذریعے ملک کے معاشی استحکام کا ایک اہم ذریعہ بھی۔

ڈاکٹر زاہد اشرف

نباتی ادویات کی عالمی تجارت میں پاکستان کا حصہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *