Nabz

آج کے خزاں رسیدہ دور میں علم سیکھنے والے بھی نہ رہے اور علم سکھانے والے بھی کم رہ گئے ہیں۔ ان آندھیوں میں بھی ہم چراغ علم جلائے ہوئے ہیں ۔ میں حاضرین اطباء پر فخر کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ کے حضور سر بسجود ہوں کہ اللہ کے فضل و کرم سے آپ دکھی انسانیت کی خدمت میں مصروف عمل ہیں یقینا اس کا اجر اس ادارہ کے بانی حکیم مولانا عبدالرحیم اشرف کو بھی جاتا ہے۔

آج میں جب ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے مصروف عمل اطباء پر نظر دوڑاتا ہوں تو خوشی ہوتی ہے کہ بظاہر ہم نے تعداد کو کھویا ہے مگر جب آپ لوگوں کو مریضوں کی خدمت میںمنہمک دیکھتا ہوں تو لگتا ہے کہ بہت کچھ پالیا ہے۔ وہ پودا جسے ادارہ کے بانی نے نصف صدی قبل لگایا تھا ، آج نخل تناور بن چکا ہے۔

آج آپ لوگوں کو یہاں دیکھ کر جو خوشی حاصل ہورہی ہے ، اس کا کوئی بدل نہیں۔ دوستو! میں اللہ کے حضور شکر گزار ہوں کہ تقریباً نصف صدی قبل ایک عالم دین نے جو خواب دیکھا تھا ، آج ہم اس کی تعبیر دیکھ رہے ہیں۔ حضرت مولانا عبدالرحیم اشرف فرمایا کرتے تھے کہ اگر ہم ایک بھی اچھا طبیب پیدا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو شاید یہ عمل ہمارے لئے آخرت میں نجات کا باعث بن جائے۔ آپ یقینا اپنے میدان کے کامیاب صاحب فن ہیں ۔ آج جب میں آپ کو دکھی انسانیت کی خدمت میں مگن دیکھتا ہوں تو خوشی ہوتی ہے میںطبی کانفرنس کے تنظیمی دوروں کی غرض سے جب ملک کے طول و عرض میں جاتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ ہر جگہ اس ادارہ کے اطباء بہ طرز احسن معالجانہ خدمات انجام دے رہے ہیں۔ میں گزشتہ دنوں ملتان گیا وہاں پر بھی ملک کے دیگر حصوں سے آئے ہوئے ابنائے جامعہ طبیہ اسلامیہ سے ملاقات ہوئی اور حال احوال کا تبادلہ خیال ہوا تو ان سے مل کر لگا کہ جامعہ طبیہ اسلامیہ ایک تعلیمی ادارہ نہیں بلکہ امراض کے خلاف ایک مشن ہے۔ آج کی تقریب بھی اسی مشن کا شق اور اعادہ کا ایک حصہ ہے جس کا موضوع نبض ہے۔

نبض دو سکونوں اور دو حرکتوں سے مرکب ایک حرکت ہے۔ جس کی ایک حرکت انقباضی اور دوسری انبساطی ہوتی ہے ۔ انقباضی حرکت اس وقت وقوع پذیر ہوتی ہے جب دل انبساطی حالت میں ہوتا ہے اور انبساطی حرکت اس وقت ظہور پذیر ہوتی ہے جب دل انقباضی حالت میں ہوتا ہے ۔ یہ ایک طے شدہ امر ہے اور جن لوگوں نے فزکس پڑھی ہے وہ اس کو بخوبی جانتے ہیں۔ پرویز مشرف کے دور میں طبیہ کالجز میں داخلہ کا معیار میٹرک سائنس مقرر کردیا گیا تھا چنانچہ آپ سب لوگ سائنس دان ہیں جو ابتدائی فزکس پڑھنے کے بعد ان کالجز میں داخلہ لیتے ہیں۔ اگر دل دھڑک رہا ہے تو ہر حرکت کے ساتھ سکون کا وجود بھی ضروری ہے۔ سائنس نے ہمیشہ طب کی فلاسفی بیان کی ہے۔طب نے اس وقت فلاسفی دی جب مشاہداتی حقائق پر مشتمل سائنس کا رواج نہیں تھا۔ فطری و طبیعیاتی مشاہدہ ہمیشہ قیاس پر ہوتا ہے۔ قیاس کی بنیاد ہمیشہ فلسفی مہیاکرتا ہے ۔ اطباء کی اکثریت ایسی ہے جو مجھ سے پڑھے ہیں اس لیے مختصر شارٹ کٹ بات کرر ہاہوں۔

دو سکونوں اور دو حرکتوں کے درمیان کا طبیعی میلان نبض طے کرتا ہے کہ روح حیوانی کتنی طاقت ور ہے اور روح حیوانی و طبیعی ہی ہر تغیرمیں ذمہ دار ہوتی ہے ہرقوت کا روح کے ساتھ اتصال ہوتا ہے ۔ اور قوت تغیرات بدن کا آلہ ہوتی ہے جو لوگ کہتے ہیں کہ نبض سے کچھ پتہ نہیں چلتا وہ غلط ہیں ۔ کیا دل کی حرکت خود بخود وجود میں آئی ہے۔ کیا یہ اچانک شروع ہوتی ہے اور اچانک ختم ہوجاتی ہے۔ جب اطباء یہ کہتے ہیں کہ روح دماغ میں جاتی ہے تو روح نفسانی بن جاتی ہے ، جب بدن کو زندگی دیتی ہے تو روح حیوانی بن جاتی ہے ۔ اور جب طبعیاتی قوتوں میں تصرف کرتی ہے تو طبیعی ہوجاتی ہے ،کھیل کر آنے والے کی نبض کھیل دیکھنے سے مختلف ہوتی ہے۔ ایک ماں کے ہاتھ کا تیار کردہ کھانا سب بھائی کھاتے ہیں۔ مگر سب کی جسامت ، قوت اور نشوونما کیوں ایک جیسی نہیں ہوتی۔ ا س کا انحصار سیل ریسیپٹر پر ہوتا ہے کہ وہ روح کی قوت کو کس قدر وصول کرتے ہیں۔ روح حیوانی اور روح نفسانی کی موجودگی کا جنہوں نے اقرار کیا انہوں نے نبض کی 3/4 حقیقت کو مان لیا۔

جو لوگ کہتے ہیں کہ نبض سے پتہ نہیں چلتا وہ کلیات قانون کو نہیں سمجھ سکے۔ اگر خارجی سکون نہیں ہے تو پھر باطنی حرکت بھی نہیں ہے اگر باطنی حرکت نہیں ہے تو پر باطنی سکون بھی نہیں ہے تو پھر زندگی بھی نہیں ہے۔ اطباء نے نبض کے لمس ، کیفیات اور مقدار کو جس طرح بیان کیا ہے اس پر ان کو داد دینا پڑتی ہے کیونکہ حرارت منفعلہ جب کسی عضو کے داخلی ماحول (Milieli Iinterieun) پر اثرانداز ہوتی ہے توخلیہ کا اندرونی  خلاء  بوجہ حرارت بڑھ جاتا ہے۔ نبض اگر پھیل جائے تو جان لیں کہ یہ عمل حرارت کے زیر اثر ہو اہے اور مزاج کا اعتدال اگر حرارت کی طرف بڑھ گیا تو یقینا یہ عمل تیز ہو جائے گااور نبض سریع، مشرف اور متواتر ہوسکتی ہے  نتیجتاً سانس چڑھنا شروع ہو جاتا ہے ۔ جب یہ نسیجی خلاء پیدا ہوتا ہے تو خون اس خلاء کو پر کرتا ہے لہٰذا نبض میں تبدیلی آتی ہے ۔ جب دوڑتے ہیں تو دل کے دھڑکن کیوں تیز ہو جاتی ہے ۔ اس لئے کہ آکسیجن کی ضرورت بڑھ جاتی ہے ۔ ہوا کا مزاج گرم تر ہے ۔ اکیلی نبض سب کچھ نہیں بتاتی۔ علامات بھی راہنمائی دیتی ہیں۔

حکیم منصور العزیز

تشخیص امراض میں نبض کا کردار
Tagged on:                         

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *