تلی… جسم کا دفاعی عضو

جب آپ اپنے معالج کے پاس سفر کے لئے روانہ ہونے سے قبل صحت کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے لئے جاتے ہیں تو وہ آپ کے جسمانی معائنے کے دوران آپ کے پیٹ کے بائیں جانب پسلیوں کے نیچے بار بار ہاتھ سے دبائو ڈال کر کوئی چیز محسوس کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس وقت جو چیز آپ کا معالج محسوس کرنے کی کوشش کرتاہے ، وہ معدے کے پیچھے اور گردے کے اوپر واقع ہوتی ہے، اسے طحال یا تلی کہا جاتا ہے۔

طحال جسم کے لمفاوی نظام(Lymphatic System) کا سب سے بڑا عضو ہے ۔ نوجوان فرد میں اس کا وزن سو گرام سے ڈھائی سو گرام تک ہوتا ہے۔ یہ تقریباً پانچ انچ لمبی اور تین انچ چوڑی ہوتی ہے۔ اگر آپ کی تلی سوجی ہوئی یا سخت حالت میں ہوتو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ امراض پیدا کرنے والے جراثیم آپ کے جسم کے اندر داخل ہو چکے ہیں۔ متعدی بیماری کی صورت میں تلی اپنے اصل حجم سے آٹھ گنا تک بڑھ جاتی ہے۔ خواہ وہ معمولی بیماری ہو یا جگر کی سختی یا خون کے سرطان جیسی مہلک بیماری ہو۔ آپ کا معالج دراصل تلی کے بارے میں یہ یقین کرنا چاہتا ہے کہ کہیں یہ سوجی ہوئی یا اپنے اصل حجم سے بڑھی ہوئی تو نہیں ہے، کیونکہ یہ حالت لازماً اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ جسم کسی نہ کسی متعدی مرض کا شکار تو ہے۔

تلی ایک ایسا چھوٹا سا عضو ہے، جو جسم کے خون اور دفاعی نظام سے متعلق اہم کام انجام دیتا ہے۔ اگر چہ اس عضو کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ، لیکن اکثر امراض میں جب اسے جسم سے نکال کر الگ کردیا جاتا ہے تو کوئی غیر طبعی کیفیت پیدا نہیں ہوتی۔

تلی کے افعال

تلی بیک وقت مختلف کام انجام دیتی ہے۔یہ جسم کے کباڑ خانے کی حیثیت بھی رکھتی ہے،جہاں جسم کے سارے خون میں موجود سرخ خلیات اپنی عمر (120دن) پوری کرنے کے بعدتلی میں آجاتے ہیں ، جہاں ان میں سے ہیموگلوبن الگ کرلی جاتی ہے ۔ ہیمو گلوبن میں فولاد ہوتا ہے، جو سرخ خلیات کا اہم جزو ہے۔ سرخ خلیہ اپنی عمر پوری کرنے کے بعد ناکارہ ہو جاتا ہے ، لیکن اس میں موجود ہیمو گلوبن کو تلی الگ کرکے دوبار استعمال کرلیتی ہے۔

دوسری طرف یہ دفاعی نظام کے ایک اہم عضو کی حیثیت سے جسم پر حملہ آور ہونے والے جراثیم اور طفیلی اجسام کے خلاف کام کرتی ہے۔ یہ بیرونی حملہ آور جسم کے خلاف فوراً ، ضد اجسام ( اینٹی باڈیز) اور ایسے خلیات تیار کرتی ہے ، جو جراثیم کو خود ڈھونڈ نکالتے ہیں اور پھر ان پر حملہ کرکے ختم کردیتے ہیں۔

تلی ایک فلٹر کے طور پر بھی کام کرتی ہے۔یہ جسم کے خون کو مسلسل چھانتی اور صاف کرتی رہتی ہے۔24گھنٹے کے وقفے میں تلی جسم کے مکمل دوران خون کو تقریباً 16مرتبہ چھان لیتی ہے۔

تلی کی اندرونی ساخت

تلی کی اندورنی ساخت بڑی پیچیدہ ہے۔ اس کے اندر خون کی انتہائی باریک رگوں کے جال بچھے ہوئے ہیں۔ تلی کے اندرونی حصے میں سرخ اور سفید گودے ہوتے ہیں۔ صاف خون کی رگیں سفید گودے میں سے گزرتی ہوئی سرخ گودے میں جاتی ہیں، جہاں سے یہ خون ورید کے ذریعے واپس دل میں چلا جاتا ہے۔ سفید گودے میں مخصوص قسم کے سفید خلیات ہوتے ہیں ،جو بیکٹیریا اور بیرونی اجسام کو فوراً ہڑپ کر جاتے ہیں، جب کہ سرخ گودے میں خون کے سرخ خلیات اور لمفاوی خلیات ہوتے ہیں۔ انسانوں کے علاوہ تمام حیوانات میں تلی کے گرد چکنے عضلات پائے جاتے ہیں ، جو جسم میں خون کی کمی کی صورت میں سکڑ کر اپنے اندر موجود خون کو دوران خون میں شامل کردیتے ہیں تاکہ خون کی کمی پوری ہوجائے۔

تلی کے مخصوص افعال

تلی کا ایک نہایت اہم ترین کام یہ ہے کہ یہ جسم میں داخل ہونے والے وائرس اور بیکٹیریا کو ہلاک کرتی ہے۔ اگرچہ جسم کے دیگر اعضاء بھی ان جراثیم کے خلاف جنگ میں حصہ لیتے ہیں، لیکن تلی سب سے پہلے اپنا کام شروع کردیتی ہے۔ دوران خون میں جراثیم اور مضر اجسام کو محسوس کرتے ہیں۔ یہ ایسے دفاعی خلیات تیار کرتی ہے جو جراثیم کو نگل کر ہضم کر جاتے ہیں۔ بیرونی حملہ آور اجسام کو ہڑپ کر جانے کے اس عمل کو جراثیم خوری (Phagocytosis) کہا جاتا ہے۔

جب جسم کسی تعدیے (انفیکشن) میں مبتلا ہو جاتا ہے تو تلی سوج جاتی ہے۔ تلی کے سوجنے کی وجہ دراصل اس کے کام کی زیادتی ہوتی ہے، جو وہ تعدیہ پھیلانے والے جراثیم کو ہلاک کرنے کے لئے مخصوص خلیات کو تیار کرنے کے لئے کرتی ہے۔ انتہائی تیزی سے کام کرنے کے باعث اس پر ورم آجا تا ہے اور اکثر صورتوں میں اسے آپریشن کرکے نکال دیا جاتا ہے۔ اس کے نکالنے کے بعد کوئی مضر اثرات رونما نہیں ہوتے۔

تلی کا ایک اور اہم کام یہ ہے کہ یہ خون کے سفید اور سرخ خلیات کو چھانتی ہے اور جو سرخ خلیات ناکارہ ہو جاتے ہیں، ان میں سے ہیموگلوبن الگ کرتی ہے، اسی وجہ سے تلی کو سرخ خلیات کا قبرستان بھی کہا جاتا ہے۔ تلی کے سفید گودے میں لمفو سائٹس (Lympho Cytes)تیار ہونے کے علاوہ پلازما خلیات بھی تیار ہوتے ہیں ۔ اس حصے میں ضد اجسام بھی تیار ہوتے ہیں۔

تلی کے سرخ گودے میں نئے پختہ ہونے والے سرخ خلیات جمع رہتے ہیں۔اس کے علاوہ اس حصے میں خون جمانے والے خلیات(Platelet Cells) اور کچھ مقدار میں لمفوسائٹس(Lympho cytes) اور مونو سائٹس(Monocytes) بھی موجود ہوتے ہیں۔ماں کے رحم میں پرورش پانے والے جنین(Foetus) میں تلی خون تیار کرنے کا ایک اہم عضو ہوتی ہے ،لیکن پیدائش کے بعد یہ خون تیارکرنے کا کام بند کردیتی ہے۔

صحت کی حالت میں تلی بائیں طرف پسلیوں کے نیچے ہاتھ لگانے سے محسوس نہیں ہوتی، مگر مرض کی حالت میں وہ بڑھ کر بعض اوقات پورے معدے کو ڈھانپ لیتی ہے۔ اس کی وجہ سے مریض کا پیٹ کسی قدر بڑھا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ مریض کا ہاضمہ خراب ہو جاتا ہے۔ جسم اور چہرے کا رنگ پھیکا سیاہی مائل سفید ہو جاتا ہے۔ آنکھوں میںگدلاہٹ سی تیرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ پیشاب اور پاخانہ سفیدآتا ہے۔ مریض دن بدن کم زور اور لاغر ہو تا جاتا ہے اور تمام جسم سوکھ جاتا ہے۔ تلی کے مقام پر خفیف درد ہوتا ہے۔ ورم کی حالت میں بخار کبھی شدت اختیار کر جاتا ہے اور کبھی کم ہو جاتا ہے۔

تلی بڑھ جانے کی صورت میں معالج مریض کو چکنی و روغنی اشیاء،مٹھائیوں اور ثقیل غذائوں سے پرہیز کراتے ہیں۔

مذکورہ فائدوں کے علاوہ اور بہت سے فوائد اس مزے دار سبزی میں پائے جاتے ہیں۔ ذیابیطس کے مریض اسے بلا خوف کھاسکتے ہیں، اس لئے کہ یہ خون میں گلو کوز کی مقدار کو قابو میں رکھنے میں مدد دیتی ہے، دل کی صحت بہتر کرتی اور بڑھتی ہوئی عمر کے اثرات بھی زائل کرتی ہے۔ اس میں موجود میگنیزیم ، مینگنیز اور فاسفورس جسم میں نئے خلیات(سیلز ) بناتے ہیں اور کولیسٹرول کو کم کرتے ہیں۔

٭…٭…٭

تلی… جسم کا دفاعی عضو
Tagged on:                             

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *