
ماں باپ دنیا میں قدرت کا ایک ایسا عطیہ ہیں جن کا نعم البدل کہیں نظر نہیں آتا۔ کتاب ہستی کو جہاں سے بھی کھولا ، انہی کی یادوں کا باب نکلا۔ خدا معلوم کیا وجہ ہے کہ میرا قلم وہ الفاظ لکھنے سے قاصر نظر آتا جو میرے جذبات ادا کرنا چاہتے ہیں۔ دونوں ہستیاں ہی انسانی زندگی میں لازم و ملزوم ہیں مگر میں آج یہاں اپنے والد کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جن کی بے پناہ محبت اور شفقت نے جینے کا سلیقہ سکھایا، یہی وجہ ہے کہ والد کے انتقال کے بعد یوں محسوس ہوتا ہے جیسے میں وقت کی عدالت میں تنہا کھڑا ہوں۔ ان کی رحلت کے بعد کوئی بھی ایسا نہیں ملا جس نے مجھے ان جیسا سہارا دیا ہو ، یہی وجہ ہے اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی ان کی یاد سے غافل نہیں ہوسکا۔ والدین توسب کے ایک جیسے ہوتے ہیں مگر بعض والدین ایسے ہوتے ہیں جن کی جدائی اولاد کے لئے مایوسی کا سبب بن جاتی ہے۔ ان کے بعد اداسی اور بے چینی کچھ اس طرح چھا جاتی ہے کہ جس سے چھٹکارا حاصل کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہو جاتا ہے ۔ ان کی یاد کبھی کبھی دل کے دروازے پر ایسے دستک دیتی ہے جیسے اندھیری رات میں تارے نکلتے ہیں۔
جنوری کا مہینہ میرے والد صاحب کی وفات کا مہینہ ہے جو میرے لئے بڑا تکلیف دہ ہوتا ہے مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ میرے چاروں طرف جیسے اندھیروں کے مہیب سائے چھائے ہوئے ہیں ۔کوئی کام کرنے کو دل نہیں کرتا ۔ ان کے بغیر جیون کا یہ سفر اتنا ادھورا اور بے کیف سا محسوس ہوتا ہے دل کی دھڑکن تیز ہوتی دکھلائی دیتی ہے۔میری انتہائی کوشش ہوتی ہے کہ ان اضطرابی لمحوںکو بھول جائوں جنہوں نے میری زندگی کو ریزہ ریزہ کردیا ہے تاکہ میرے تھکے ہوئے اعصاب کو سکون میسر آجائے۔ گو مجھے غم دوراں نے جینے کا سلیقہ تو سکھا دیا ہے، ویسے بھی اب مجھ میں جسمانی طورپر وہ سکت نہیں رہی پھر بھی والد صاحب کے مدفن پر الفت کی چادر گاہے بہ گاہے چڑھا دیتا ہوں تاکہ میرا ان سے روحانی رشتہ قائم رہے۔ کبھی کبھار ان کو الفاظ کا نذرانہ عقیدت بھی پیش کردیتا ہوں ۔ یہ میرے جذبات ہیں جنہیں میں نے مختصر طور پر تحریر کیا ہے کیونکہ میرے والد ہمارے لئے محبت، شفقت اور پیار کا ایسا بے کراں سمندر تھے جس کا احساس آج بھی ہماری سانسوں میں رچا بسا ہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو جنت الفردوس میں جگہ دے۔
سارے جہاں کی دھوپ میرے گھر میں آگئی
سایہ تھا جس درخت کا سر سے وہ کٹ گیا
یوں تو مسلمانوں کے لئے خطہ امن کی تحریک نے سرسید سے لے کر علامہ اقبال اورقائداعظم ؒ تک بہت سے عظیم راہنمائوں کو جنم دیا جو کسی تعارف کے محتاج نہیں تاہم ان مشہور عالم شخصیات کے علاوہ بھی ایسے افراد تھے جنہوں نے حصول وطن کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لئے تن ،من، دھن کی بازی لگادی اور جب اس خواب نے حقیقت کا روپ دھار لیا تو انہوں نے اس کی آبیاری کو اپنا مقصد حیات ٹھہرایا۔ ان کے پیش نظر کوئی ذاتی فائدہ بھی نہ تھا لیکن افسوس نوجوان نسل کو ان سیاسی و سماجی شخصیات تک کے نام یاد ہیں اور نہ ہی کسی حکومت نے ایسے اشخاص کے نام منظر عام پر لانے کی زحمت کی ہے ۔حقیقت میں یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے انگریزوں کے استبدادی دور میں غلامی کی زنجیروں کو توڑنے کے لئے انگریز مخالف تحریک میں بھر پور حصہ لیا اور قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں لیکن اسلام کا سربلند پرچم سرنگوں نہ ہونے دیا ۔ ایسے ہی سرفروشوں میں سے ایک شخصیت پروفیسر حکیم عبداللہ خان نصر علیگ مرحوم کی بھی تھی۔
آپ 1898ء میں سوہدرہ ضلع گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے ، اسی مردم خیز خطہ سے ڈاکٹر علامہ اقبال اور مولانا ظفر علی خان کا تعلق تھا۔ آپ کے والدین کا بچپن میں ہی انتقال ہوگیا ۔ آپ کی پرورش آپ کے ماموں برکت علی مرحوم نے کی جو خود بھی بڑے دین دار انسان تھے۔دینی اور دنیاوی تعلیم پر خصوصی توجہ دی ۔ ابتدائی تعلیم عربی ، فارسی ، قرآن شریف اور حدیث کی کتابیں اپنے علاقے کے جید علماء حافظ عبدالمنان محدث وزیر آبادی اور مولوی عمر دین مرحوم سے پڑھیں اور پھر مدرسہ محمدیہ (گوجرانوالہ) مولانا محمد اسماعیل اور دیگر اساتذہ سے منطق ، فلسفہ، صرف و نحو، ادب و معانی سکندر نامہ ، حدیث اور تفسیر پڑھیں۔ اسلامی علوم کے ساتھ ساتھ دنیاو ی تعلیم بھی حاصل کی ۔ جید علماء کرام کا فیض تھا اور ان کی صحبت کا اثر تھا جس نے ان کے انداز فکر کو بدل دیا۔ اسلامی علوم نے ایک ایسا جذبہ پیدا کردیا جس سے انہیں اپنے اسلاف کے کارناموں سے پوری طرح آگاہی حاصل ہوگئی۔
حکیم عبداللہ خان نصر کے شباب کا زمانہ تھا جب تحریک خلافت ہندوستان کے سیاسی افق پر ابھری ۔آپ نے اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ایک ایسے سچے مجاہد کا کردار ادا کیا کہ انگریز نے مجبوراً دفعہ124ایف،153الف کے تحت بغاوت کے الزام میں میانوالی جیل میں پابند سلاسل کردیا، اس وقت جیل میں اس دور کی نام ور شخصیات جیل میں سزا کاٹ رہی تھیں جن میں مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری، مولانا عبدالمجید سالک ، بیرسٹر آصف، صوفی عبدالرحمن آٹے والا ، صوفی اقبال پانی پتی، مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی، بابا گوردت سنگھ، سوامی شیر دھانند جیسی قابل ذکر شخصیات شامل تھیں۔ حکیم صاحب کو اس بات پر ہمیشہ فخر رہا کہ انہیں تاریخ ساز ہستیوں کے ساتھ جیل میں رہنے کا موقعہ ملا۔میانوالی جیل سے رہائی کے بعدتحریک مجاہدین کے ساتھ کام کیا اور امیر المجاہدین مولانا فضل الٰہی وزیر آبادی کے بھانجے عبدالحق کے ہمراہ مجاہدین کے مرکز ثمر قند جاتے ہوئے سرحدی گائوں مچیناں کے مقام پر گرفتار ہوئے او رپشاور کنٹوٹمنٹ جیل میں قید رہے اور پھر یہاں سے رہائی کے بعد مولانا ثناء اللہ امر تسری کا خط لے کر دہلی میں حکیم اجمل خان کی خدمت میں حاضر ہوا انہوں نے طبیہ کالج میں داخل کرادیااور ان کی سرپرستی میں طب کی تعلیم حاصل کرنے کا موقعہ ملا جس سے میری سیاسی اور طبی تربیت ہوگئی ۔ جو آئندہ کی زندگی میں مفید ثابت ہوئی۔ طبیہ کالج دہلی سے طب کی ڈگری امتیازی حیثیت سے حاصل کی پھر جامعہ ملیہ دہلی میں میڈیکل آفیسر اور ہائوس سرجن کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں، اسی دوران جب مسلم لیگ کے قائدین محمد علی جناح نے مارچ1927ء میں مسلمان قائدکی کانفرنس بلائی تو حکیم اجمل خان کے وفد میں حکیم عبداللہ خان نصر بھی شامل تھے، یہ ان کا قائداعظم کو ملنے کا پہلا موقعہ تھا ۔ دہلی میں قیام کے دوران مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں حکیم اجمل خان کی سفارش پر پروفیسر کے عہدے پر تعیناتی ہوئی ۔ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں فائز ہونے کے بعد ان کا حلقہ احباب وسیع ہوتا چلا گیا اور بڑے بڑے اکابرین سے تعلقات استوار ہو گئے، جن میں ڈاکٹر ذاکر حسین سابق صدر بھارت ،قائداعظم محمد علی جناح، مولانا محمد علی جوہر،مولانا شوکت علی ، ڈاکٹر علامہ اقبال ، پروفیسر رشید احمد صدیقی، مولانا حسرت موہانی، جواہر لال نہرو، لکشمی پنڈت جیسی قد آور شخصیات شامل تھیں۔ علی گڑھ سے ان کی وابستگی کا یہ عالم تھا کہ وہ اس دور کو ہندوستان کی تاریخ میں اپنے لئے یاد گار لمحات قرار دیتے تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ جو ادبی چاشنی اور رنگ یہاں پر دیکھنے کو ملا وہ پھر علی گڑھ چھوڑنے کے بعد نظر نہیں آیا۔ وہ کہا کرتے تھے کہ ہمارا علی گڑھ سے نکلنا بالکل ایسے ہوا جیسے حضرت آدم علیہ السلام کو جنت سے نکال دیا۔ بہر حال بہ امر مجبوری1948ء کو ہندوستان سے ہجرت کرکے اپنے آبائی قصبہ سوہدرہ آنا پڑا اور پھر یہیں مستقل سکونت اختیار کرلی۔ انہیں زندگی بھر اس بات کا ملال رہا کہ یہاں اُ س طرح کا ادبی ماحول میسر نہیں آیا جیسا علی گڑھ میں تھا۔
پاکستان آنے کے کچھ عرصہ بعد حکیم غلام جیلانی کی شہرہ آفاق کتاب مخزن حکمت پر کئی سال تک نظرثانی فرمائی اور لاہور میں ہی ان کی زیر ادارت ایک رسالہ شمس الاطباء کا اجراء عمل میں آیا۔ یوں زندگی بھر کی علمی قابلیت کو سپرد طاق نسیاں کرکے ملازمت کا طوق اپنے گلے میں ڈالنے پر مجبور ہوگئے حالانکہ ایسی ملازمت ان کی طبیعت سے مناسبت نہیں رکھتی تھی۔ رفتہ رفتہ حالات سے سمجھوتہ کرلیا اور زندگی کی گاڑی چلتی رہی۔ کئی سال تک کتاب پر نظرثانی کا سلسلہ چلتا رہا آخر کار اس فریضہ سے سبکدوش ہوگئے۔ کچھ عرصہ بعد فیصل آباد کے حکیم مولانا عبدالرحیم اشرفؒ کا خط موصول ہوا کہ آپ ہمارے ادارے میں تشریف لائیں۔ انہوں نے والد صاحب کو طبی مشاورتی بورڈ کا ممبر، جامعہ طبیہ اسلامیہ فیصل آباد کا پرنسپل اور ایک ماہنامہ رسالہ’’خبر نامہ طب‘‘ کے ایڈیٹر کی حیثیت سے ذمہ داری سونپی اور ان کی کئی کتابوں پر نظر ثانی فرمائی۔ یہ سلسلہ برسوں چلتا رہا مگر پیرانہ سالی کی وجہ سے مزید کام کرنے سے معذرت کرلی۔ کیونکہ لاہور سے روزانہ فیصل آباد جانا مشکل تھا،اس ملازمت سے سبکدوشی کے بعد دواخانہ حکیم اجمل خان کے مالک حکیم محمد نبی خان جمال سویدا نے آپ کو دواخانے میں بطور انچارج طبیب ذمہ داری سونپ دی اور ساتھ ہی اس خواہش کا اظہار کیا کہ آپ کی زیر ادارت ایک رسالہ ’’اجمل‘‘ کا اجراء بھی کیا جائے ،یہ آپ کی آخری ملازمت تھی۔ اگر حقیقت کی نگاہ سے دیکھا جائے تو یہ تمام ملازمتیں اس امر کی گواہ ہیں کہ وہ کس قدر عالم فاضل انسان تھے، افسوس کہ یہاں پر اُس طرح اُن کی پذیرائی نہ ہوسکی جس کے وہ مستحق تھے۔ وہ اپنے عہد کے جلیل القدر طبیب اور شعرو ادب ، حکمت کی تحقیق و تدریس ، علم حدیث،عربی،فارسی، انگریزی اور منطق فلسفہ کے علوم میں غیر معمولی دسترس رکھتے تھے۔ قدرت نے انہیں شعرو سخن کی دولت سے بھی بہرہ ور کیا تھا۔ خوش گفتار اور بزلہ سنج ایسے کہ مجلس کو کشت زعفران بنا دیتے تھے۔ ان تمام خوبیوں کے باوجود یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ کئی لوگ ان کی علمی محنت پر اپنی عمارت تعمیر کرتے رہے۔ میں نے ایک دفعہ اپنے والد صاحب سے پوچھاکہ آپ اتنا کچھ لکھتے ہیں مگر آج تک آپ نے اپنے نام سے کوئی کتاب نہیں لکھی۔ فرمانے لگے! ایک ہی کام ہوسکتا ہے آپ کی پرورش کروں یا کتاب لکھوں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی تمام توانائی ہماری خاطرملازمت پر قربان کردی۔ایسے کتنے ہی لوگ ہوں گے جنہیں انہوں نے صاحب کتاب بنادیا۔ پاکستان آنے کے بعد ان کی ساری زندگی فکر معاش میں گزر گئی مگر کسی سے دست سوال نہ کیا۔
آخر کار یہ مرد مجاہد25جنوری 1978ء کو خالق حقیقی سے جا ملے۔ اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین۔
پروفیسر حکیم عبدالرحمن نصر سوہدروی
٭…٭…٭