عمل دوا سازی کی عمومی غلطیاں اور ان کے نتائج

مطب کی ادویہ کا اہم ترین مرحلہ نسخہ نویسی ہے جس میں بعض اوقات سادہ لوح عوام سے اور کبھی کبھی غیر تجربہ کار پنساری طبیب کے نسخہ میں دی گئی ہدایات کو نظر انداز کرتے ہوئے ایسی ایسی سنگین غلطیاں کر بیٹھتے ہیں ،جن کی بناپر اہم ترین نسخہ جات اپنی افادیت کھو بیٹھتے ہیں۔ بد قسمتی یہ کہ اس پر اپنی کم علمی یا سادہ لوحی کی بجائے الزام طب کے سسٹم پر دھرنے میں ذرہ برابر بھی ملال نہیں کیا جاتا۔ کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ جڑی بوٹیاں بھی دو نمبر آرہی ہیں، اس بنا پر ان میں افادیت پہلے والی نہیں رہی، کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ جڑی بوٹیاں خود رو کی بجائے کاشت کرکے حاصل کی جاتی ہیں، اس بنا پر ان میں وہ افادیت موجود نہیں۔

ایک حقیقت ان اعتراضات کے برعکس بھی ہے۔ بالعموم طبیب جب کسی مریض کو کوئی نسخہ لکھ کر پنساری سے خر ید کر استعمال کرنے کا کہتا ہے تو وہ اس کے استعمالات اور مفردات کے اوزان بھی ساتھ ہی لکھ دیتا ہے ۔ اس نسخہ میں فرض کریں 4اجزاء ہیں ۔ طبیب نے نسخہ لکھتے وقت اجزاء کے اوازن بھی لکھے تھے جوکہ 10-10 گرام تھے ۔ بالفرض وہ نسخہ پنساری سے 100روپے میں ملا تھا ۔ اگلی بار وہ مریض اپنی سادگی میں وہی نسخہ پنساری سے لینے کے لئے جب طبیب کی لکھی ہوئی پرچی کے بغیر جاتا ہے تو وہ اسے اپنی یادداشت کے مطابق 100روپے میں چاروں اجزاء دینے کا کہتا ہے۔پنساری وہ چاروں اجزاء 25-25روپے کے حساب سے وزن کے مطابق اسے باندھ کر دے دیتا ہے ، جس میں کوئی جز بالفرض 120گرام ، کوئی 50گرام کوئی 20گرام اور کوئی 10گرام ہوتا ہے تو وہ فرد نسخہ کو طبیب کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق تیار کرکے استعمال کرتا ہے مگر اجزاء کے اوزان طبیب کے مقرر کردہ پیرا میٹر کے مطابق نہیں ہوتے۔ لہٰذا اوزان کی کمی بیشی سے وہ نسخہ جو بارہا کا آزمودہ تھا بے کار ثابت ہوتا ہے۔ بدقسمتی یہ کہ ہمارے عوام کی سادہ لوحی دیکھیں کہ وہ اپنی کم علمی کو مورد الزام ٹھہرانے یا اسی طبیب سے رابطہ کرکے نسخہ کے کام نہ کرنے کے حوالے سے راہنمائی لینے کی بجائے خود ہی یہ فیصلہ کر بیٹھتے ہیں کہ جڑی بوٹیاں دو نمبر آرہی ہیں یا آج کے ترقی یافتہ دور میں ہزارہا سال سے مستعمل ادویہ اب کار گر نہیں رہیںمگر حقیقت کچھ اور ہی ہوتی ہے۔

اسی طرح ہمارے بعض اطباء کرام آرام پسند ہوگئے ہیں۔ اپنے مطب کے لئے نسخہ جات لکھ کر اپنے معاون کے ہاتھ پنساری کے ہاں تیاری کے لئے بھیج دیتے ہیں۔ اب ان نسخہ جات کی تیاری کے مراحل جو کہ قدیم اطباء اپنی زیر نگرانی کرواتے تھے، پنساری کے رحم وکرم پر چھوڑ دیتے ہیں۔مثلاً نسخہ میں شامل اجزاء میں سے کچھ کا پوست مستعمل ،کچھ کا مغز ۔پنساری کے طبیب نہ ہونے کی بنا پر اگر کہیں بھی کوئی غفلت ہوگئی تو اچھا بھلا صدیوں کا آزمودہ نسخہ بے کار ہوجائے گا۔ علاوہ ازیں نسخہ کوپیسنے کے دوران اپنی مصروفیت کی بنا پر پنساری بہ عجلت ، تمام اجزاء کو اکٹھے گرائینڈر میں ڈال کر پیس دیتا ہے ،تو اس عمل کے دوران ہونے والی سنگین غلطی یہ ہے کہ فرض کریں وہ نسخہ 10اجزاء پر مشتمل تھا ، اس میں شامل اجزاء 100-100گرام تھے۔ تمام اجزاء کو اکٹھے گرائینڈ کرنے پر یہ قباحت سامنے آتی ہے کہ کسی جزو سے نکلنے والا پھوک15گرام کسی سے 10گرام، کسی سے 5گرام اور کسی سے نہ ہونے کے برابر تھا۔ ان کو اکٹھے گرائینڈ کرکے استعمال کرنے پر ان کے اجزاء کا وہ تناسب جو قدیم اطباء نے مقرر کررکھا تھا ، برقرار نہیں رہتا۔ نتیجتاً صدیوں کا آزمودہ نسخہ اپنی افادیت برقرار نہیں رکھ پاتا۔ بد قسمتی یہ ہے کہ ہم اس کے مضمرات میں جانے کی بجائے یا تو جڑی بوٹیوں کے دونمبر ہونے کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں یا پھر وہی غلط العام بات کہ آج کے ترقی یافتہ دور میں ہزاروں سال پہلے کی ادویہ عصری تقاضوں کو پورا نہیں کررہی ہیں ۔

ٓج کے دور میں بھی ذمے داری کے ساتھ مطب کرنے والے اطباء کرام پنساری سے کوئی نسخہ منگوانے کے بعد اپنی تسلی کے لئے اس کے اوزان چیک کرتے ہیں تاکہ پنساری کی معمولی سی غفلت کہیں سنگین نتائج کا پیش خیمہ نہ بن پائے۔ علاوہ ازیں تمام اجزاء کو خود صاف کرتے ہیں۔ جن ادویہ کے پوست استعمال ہونے ہیں، ان کے پوست لیتے ہیں ، جن کے مغز استعمال ہونے ہیں، ان کے مغز لیتے ہیں، پوست اور مغز کے وزن کو نسخہ کے مقرر کردہ اوازان کے مطابق لیتے ہیں۔ تمام اجزاء کو الگ ، الگ کو ٹ چھان کر یا گرائینڈ کرکے الگ الگ وزن کرتے ہیں ، کسی کمی بیشی کی صورت میں اپنے سٹور میں موجود مذکورہ جز کو شامل کرکے یا پنساری سے مذکورہ وزن کے برابر دوا منگوا کر اوزان کو مقررہ معیار کے مطابق کرکے پھر تمام اجزاء کے سفوف کو یکجان کرتے ہیں۔

آج کے مصروف ترین دور میں بھی کامیاب مطب کرنے والے اطباء کرام جہاں کامیاب علاج کے دیگر پہلوئوں مثلاً درست تشخیص کو ملحوظ خاطر رکھتے ہیں وہاں دوا سازی کے عمل کی نگرانی بھی وہ خود ہی کرکے پنساری سے عجلت و مصروفیت کی بنا پر ہونے والی مذکورہ سنگین غلطیوں سے بھی بچ جاتے ہیں جن کی بنا پر آج کا نوجوان طبیب اس سسٹم کے حوالے سے خواہ مخواہ غلط فہمی میں مبتلا ہورہا ہے، حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔

طب اسلامی سے خوامخواہ مخالفت رکھنے والے اس سسٹم پر آئے روز طرح طرح کے الزامات و اعتراضات لگاتے رہتے ہیں۔ کبھی سادہ لوح عوام کو یہ باور کرواتے ہیں کہ یہ ادویہ ہزاروں برس سے مستعمل ہیں ، انسان چاند پر پہنچ چکا ہے ، ہر میدان میں ترقی کرلی ہے تو علاج معالجہ کے لئے وہی پرانی ادویہ ہی کیوں؟

اس اعتراض کا جواب تو بہت سادہ سا ہے۔ جب ہم اتنی ترقی کے باوجود بھوک مٹانے کے لئے ہزارہا سال سے چپاتی اور سالن کا استعمال کررہے ہیں ۔ ہم آج تک اس کی بجائے وٹامن کی گولی کھا کر اپنی صحت کو کماحقہ برقرا رنہیں رکھ سکتے۔ وٹامن کی گولی میں خواہ توانائی کھائی جانے والے خوراک کے برابر یا اس سے زائد کیوں نہ ہو۔ صرف یہی نہیں ہسپتال میں شفا یابی کے بعد بستر پر پڑے فرد کو ڈاکٹر صاحبان ڈرپ و انجکشن کی بجائے منہ کے ذریعے خوراک کھلانے کا کہتے ہیں، تاکہ اس کی ضائع شدہ قوتیں جلد بحال ہوسکیں۔ علاوہ ازیں اتنی ترقی کے باوجود آج بھی ہنڈیا کی تیاری میں درکار مصالحہ جات ہزارہا سال سے وہی استعمال ہورہے ہیں تو پھر علاج کے لئے ان ادویات کے استعمال میں ہچکچاہٹ کیوں؟ جبکہ ان کا خالق بھی اللہ رب العزت ہی ہے۔

حکیم محمد انور

٭…٭…٭

عمل دوا سازی کی عمومی غلطیاں اور ان کے نتائج
Tagged on:                                     

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *