
مسلمانوں کے عروج کی داستان کا سب سے اہم باب بیت الحکمۃ ہے جس میں تعلیم کے حصول کے لئے دور دراز سے لوگ سفر طے کرکے آتے تھے۔ یہ ایک ایسا علمی مرکز تھا جہاں مسلم سائنس دانوں نے جنم لیا۔ ایک ایسا تدریسی مقام تھا جہاں تحقیق کی نئی جہتوں نے سانس لینا شروع کیا۔ ایک ایسا مکتب تھا جہاں نئی سوچ نے پنپنا شروع کیا۔ علم و دانش کا یہ مرکز، صرف مسلمانوں کے لئے بھی اہمیت کا حامل نہیں تھا بلکہ غیر مسلموں کے لئے بھی معتبرو محترم تھا۔ بیت الحکمۃ نے اپنی فراخ دلانہ باہیں کسی خاص مذہب یافرقے سے تعلق رکھنے والوں کے لئے ہی نہیں پھیلائیں بلکہ جس طالب علم نے بھی اپنی علمی تڑپ کی تسکین چاہی یہ درس گاہ اھلاً و سھلاً سے اس کا استقبال کرتی تھی۔
750ء میں جب شہر بغداد کی بنیاد رکھی گئی تو ساتھ ہی خلیفہ منصور نے دارالترجمہ کی بنیاد رکھی ، جہاں دنیا بھر کی کتب کے عربی تراجم کرنے کا اہتمام و انصرام کیا گیا۔ آٹھویں صدی کے اوائل میں بیت الحکمۃ ہارون الرشید کا ذاتی کتب خانہ شمار کیا جاتا تھا بعدازاں خلیفہ مامون کی علم دوستی نے اسے عوامی مرکز کی صورت میں ڈھال دیا۔ ایک بلند و بالا عمارت کی تعمیر کی گئی جس میں مختلف شعبہ جات قائم کئے گئے۔ مؤرخین اس کی تعمیر کو نادر و نایاب شاہ کار قرار دیتے ہیں۔ اس کی آرائش و زیبائش کا نقشہ کھینچتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس عمارت کو قیمتی فانوس اور روشن قندیلوں سے آراستہ کیا گیا تھا تاکہ متلاشیان علم و دانش رات کے وقت بھی علمی دریا میں غوطہ زن ہو سکیں۔ اس کے فرش پرقیمتی قالین سجائے گئے۔ اس کے درو دیوار کو دبیز ریشمی پردوں سے مزین کیا گیا۔ یہ دنیائے عالم میں سرکاری سطح کا پہلا علمی ادارہ تھا جس کے اخراجات کا بیڑہ حکومت وقت نے اٹھا رکھا تھا۔ درس و تدریس کے لئے دنیا بھر سے ماہرین کا انتخاب کیا جاتا ،یہی وجہ ہے کہ اس ادارے کی گراں قدر خدمات میں عیسائیوں، یہودیوں، ہندوئوں اور پارسیوں کا بھی ہاتھ رہا۔ اس ادارے میں مختلف شعبہ جات کا قیام المامون کے دور میں ہوا جن میں رسد گاہ ،ہسپتال، طب، ریاضی ، کیمیائی اور جغرافیائی تحقیق، کے شعبہ جات ہیں ۔ دنیا کے کونے کونے میں وفود بھیجے گئے جو نایاب مسودات تلاش کرکے لائے جنہیں عربی زبان میں ترجمہ کرکے پیش کیا گیا ۔
بیت الحکمۃ کی خدمات کو دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ اگر اس کا قیام عمل میں نہ لایا جاتا تو آج بنی نوع انسان جدید سائنسی علوم سے نابلد نظر آتی۔ بات اگر صرف تراجم تک محدود ہوتی تو شاید علوم کی نئی جہتیں متعارف نہ ہوتیں۔ بیت الحکمۃ میں صرف قدیم مسودات کے تراجم پر ہی صرف زورنہیں کیا بلکہ اس میں موجود مواد کی تحقیق بھی کی جاتی اور جو نظریات ناقص ہوتے ان کو تحقیقی انداز میں غلط ثابت کرکے نعم البدل بھی پیش کیا جاتا تھا۔یہی وجہ ہے کہ اس ادارے میں جدید علوم کی بنیادیں بھی رکھی گئیں ، چاہے وہ علم ریاضی ہو یا فلکیات ۔ جم الخلیلی کہتے ہیں،کچھ لوگوں کا موقف یہ ہے کہ بیت الحکمت بالکل بھی اتنا عظیم ادارہ نہیں تھا جتنا بعض لوگوں کی نظر میں ہے۔لیکن اس ادارے کا الخوارزمی جیسے مفکروں سے تعلق یہاں سے ریاضی ، فلکیات اور جغرافیہمیں الخوارزمی کی تحقیقات کے لئے کام سے تعلق میرے لئے کافی ثبوت ہے کہ بیت الحکمت صرف ترجمہ کی گئی کتابوں کی ایک لائبریری نہیں بلکہ علم و تحقیق کا ایک ادارہ تھا۔
بیت الحکمۃ کی خاص بات یہ تھی کہ اس نے ان عہد ساز شخصیات کو جنم دیا جو اپنے شعبے کے ماہرین تھے اور جنہوں نے نئی ایجادات متعارف کروائیں۔’’صفر‘‘ کے عدد کو دیکھ کر الخوارزمی کی یاد تازہ ہوجاتی ہے کہ جنہوں نے اسی ادارے میں بیٹھ کر الگورتھم اور الجبرا کی نئی اصطلاح متعارف کروائی،821ء میں الخوارزمی کو بیت الحکمت میں ماہر فلکیات اور چیف لائبریرین مقرر کیا گیا۔
روشنی کے انعکاس اورسائنٹیفک طریقہ پر روشنی کے عکس کو ابن الہیثم نے متعارف کروایا ۔ ان کا کہنا تھا کہ روشنی مرئیات سے پھوٹتی ہے اور یہ ایک انقلابی تحقیق تھی۔ ا ن کی مایہ ناز کتاب’’المناظر‘‘ ہے جس کا ترجمہ انگریزی میں ’’فریڈ ریک ریزنر‘‘ نے کیا ہے ۔ علم مکینیات پر گراں قدر خدمات بنو موسیٰ برادران نے سر انجام دیں۔ برطانیہ کی یونیورسٹی آف سرے کے پروفیسر جم الخلیلی کہتے ہیں کہ ’’ہمارے لئے یہ مکمل تفصیلات اہم نہیں ہیں کہ بیت الحکمت کہاں اور کب قائم کیا گیا تھا۔ اس سے بہت زیادہ دلچسپ خود وہاں کے سائنسی نظریات کی تاریخ ہے اور یہ کہ اس کے نتیجے میں وہ کیسے پروان چڑھے۔‘‘
بیت الحکمۃ کو منگولوں نے1258ء میں تباہ کردیا تھا۔ اس میں موجود تمام تر علمی مواد کو دریائے دجلہ کی نذر کردیا گیا تھا۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ کتب کی تعداد اس قدر تھی کہ دریائے دجلہ کا پانی کالا ہوگیا تھا۔ تاہم اس ادارے میں ہونے والی تحقیقات کو وہ نہ مٹا سکے، ان محققین کا نام آج بھی زندہ اور تابندہ ہے۔ بیت الحکمۃ میں کتب کا اندازہ تو نہیں کیا جاسکتا لیکن اسے موجودہ دور کی لندن کی برٹش لائبریری اور پیرس کی ببلیو تھک نیشنل لائبریری سے مماثل قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس ادارے نے ایک ایسے تہذیبی احیاء کا آغاز کیا جس نے ریاضی ، فلکیات، طب ، کیمسٹری، ارضیات، فلسفہ،ا دب اور آرٹس کے علاوہ کیمیا گری اور علم نجوم کو جدیدیت بخش دی اور بنی نوع کو ایک نئے میدان میں غوطہ زن ہونا سکھایا اور وہ تحقیق کا میدان تھا۔
مسلمانوں کا عروج ان کے علمی میدان میں فکر و تدبر سے تھا۔ آج مسلمان زوال کا شکار نظر آتا ہے کیونکہ اس نے عیش و عشرت کو اپنی متاع کل خیال کرلیا ہے۔ہم نے قرآن کی اس آیت افلا یتد برون القرآن کو پس پشت ڈال دیا ہے ،یہی وجہ ہے کہ آج ہم پراغیار کا تسلط ہے، آج ہم زوال کا شکار نظر آتے ہیں، ہم بکھرے ہوئے لوگ ہیں۔یہی وجہ ہے ہماری میراث سے اغیار دنیا پر چھائے ہوئے ہیں۔ علامہ اقبالؒ نے اسی درد کو اپنے اس شعر میں بیان کیا ہے:
مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آباء کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سی پارہ

رابعہ فاطمہ
٭…٭…٭