
میں طبیہ کالج لاہور میں داخل ہوا تو میرے ایک دوست نے ایک دن آسٹریلین دواخانہ جانا تھا اور وہ مجھے بھی اپنے ساتھ لے گیا۔
اس دواخانہ میں ایک نوجوان طبیب مریضوں کو دیکھ رہے تھے ۔ جب مریضوں سے فارغ ہوئے تو میرے دوست نے ان سے اپنی آمد کی وجہ بتائی۔
اس طبیب کا نام زبدۃ الحکماء رشید احمد شیدا تھا۔ یوں ان سے پہلی ملاقات میں ہی اندازہ ہوگیا کہ موصوف فارسی ، اردو اور عربی پہ عبور رکھتے تھے۔ ان کی گفتگو بے حد عالمانہ تھی۔ ان کی زبان دانی خاصی اچھی تھی اور مزاح ان کو خوب آتا تھا۔
یوں ہی ان سے کبھی کبھی ملاقات ہوتی رہی اور پھر زندگی کی بھول بھلیوں میں گم ہو کر رہ گیا۔ اور پھر ایک دن میں ایک دوست کے مطب پر بیٹھا تھا کہ ایک بزرگ اچکن زیب تن کئے اور سر پر جناح کیپ رکھی ہوئی تھی ، چہرے پر چیچک کے ہلکے ہلکے داغ جو چھوٹی داڑھی نے چھپا رکھے تھے۔وہ مطب میں آئے ،کپڑے تو انہوں نے عمدہ پہنے ہوئے تھے لیکن ان کی حالت اور زبوں حالی کچھ عجیب ہی داستان بیان کررہی تھی۔ اور جب انہوں نے تعارف کروایا کہ ان کا نام حکیم رشید احمد شیدا ہے تو مجھے ان سے کی گئی ملاقاتیں اور ان کی شان دلربائی اور انداز گفتگو یاد آگیا۔
اللہ تعالیٰ کی رحمت کے رنگ بھی عجیب ہیں ایک انسان کو عزت و توقیر بھی دیتے ہیں اور جب وہ اپنی کوتاہیوں سے اپنے مقام سے گر جاتا ہے تو پھر ان کو محض زندگی بسانے کاسہارا ہی دے دیتے ہیں۔
انہوں نے تعارف کروایا اور طبیہ کالج لاہور سے تعلیم و تربیت کا بتایا ۔ حکیم محمد حسن قرشی کے شاگرد ہونے کا بتایا اور زاروقطار رونے لگے ، ان دنوں ان کا ایک بیٹا اور ایک بھائی ان کے ساتھ رہتا تھا۔ عمر 70سال سے اوپر ہو چکی تھی ۔ بیٹا ذہنی طور پر غبی تھا اور بھائی بھی پیرانہ سالی میں تھا۔
روزگار نہ ہونے کے برابر تھا۔ وہ قبل ازیں اشرف لیبارٹریز فیصل آباد اور حال آنکہ جامعہ طبیہ اسلامیہ فیصل آباد میں بھی اپنی خدمات ادا کرچکے تھے مگر اب فیصل آباد میں نگہبان پورہ ریلوے پھاٹک سے اندر آئیں تو سڑک مڑ کر ایک ذیلی سڑک پر آجاتی ہے ،اسی سڑک پر ان کا مطب اور رہائش سب کچھ تھا۔غرضیکہ ان کی داستان سن کر بے حد دکھ ہوا۔ ان کو الصحت یونانی میڈیکل کالج پیپلز کالونی میں تدریس کے فرائض سرانجام دینے کے لئے آمادہ کیا ۔یوں ان کو مالی طور پر قدرے سہارا مل گیا اور وہ کافی عرصہ تک پڑھاتے رہے۔لیکن عمر بڑھنے اور خرابی صحت کے باعث وہ اس سلسلہ سے بھی جلد دستبردار ہوگئے اور کچھ عرصہ بعد پتہ چلا کہ وہ رحلت فرماگئے ہیں انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے ۔ آمین۔
پروفیسر حکیم قمر الدین سحر بھٹہ
٭…٭…٭